كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِؓ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا نَفَعَنِي مَالٌ قَطُّ، مَا نَفَعَنِي مَالُ أَبِي بَكْرٍ» قَالَ: فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ، وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ أَنَا وَمَالِي إِلَّا لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے فضائل ومناقب
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:‘‘ مجھے کبھی کسی مال سے اس قدر فائدہ حاصل نہیں ہوا جس قدر ابو بکر کے مال سے مجھے فائدہ حاصل ہوا ہے۔’’ حضرت ابو بکر (یہ سن کر) آبدیدہ ہو گئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں بھی اور میرا مال بھی آپ ہی کے لئے توہے۔
تشریح :
(1) ہمارے فاضل محقق نے اس روایت کو سندا ضعیف کہا ہے، تاہم شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے مجموعی طرق کو سامنے رکھتے ہوئے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (الصحیحۃ۔ حدیث:2718) (2) اللہ کا قرب نیک اعمال سے حاصل ہوتا ہے۔ جس قدر نیکیاں زیادہ ہوں گی اسی قدر مقام بھی بلند ہو گا، (3) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا ایمان بعد کے لوگوں سے زیادہ اعلیٰ اور اکمل تھا، اس لیے ان کے اعمال میں خلوص بھی زیادہ تھا، چنانچہ ان کے بظاہر معمولی اعمال بھی بعد والوں کے بظاہر عظیم اعمال سے افضل شمار ہوئے۔ خصوصا جن حالات میں ان حضرات نے مالی قربانیاں دیں بعد کے مسلمانوں کو وہ حالات پیش نہین آئے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لا تسبوا اصحابي‘ فلو ان احدكم انفق مثل اُحد ذهبا ما بلغ مد احدهم ولا نصيفه) (صحيح البخاري‘ فضائل اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم‘ باب قول النبي صلي الله عليه وسلم لو كنت متخذا خليلا‘ حديث:3673) میرے صھابہ کو برا نہ کہو، تم میں سے کوئی اگر اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے، تو کسی صحابی کے ایک مُد بلکہ آدھے مُد (کے ثواب) تک نہیں پہنچ سکتا۔ (4) اس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خلوص اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی محبت بھی ظاہر ہے کہ اپنے اعمال پر فخر نہیں کیا، بلکہ اپنے مال کو نبی کریم علیہ السلام ہی کا مال قرار دیا، جیسے کسی شاعر نے کہا ہے
منت منہ کہ خدمت سلطان مے کنی
منت ازو شناس کہ بخدمت گذاشت
احسان نہ جتلا کہ تو بادشاہ کی خدمت کر رہا ہے، بلکہ اس کا احسان سمجھ کہ اس نے تجھے اپنی خدمت میں رکھ چھوڑا ہے۔ (5) امام، قائد یا لیڈر کو چاہیے کہ اپنے ساتھیوں کی خدمات کو اہمیت دے اور ان کا اعتراٖ کرے تاکہ دوسروں کو بھی دین کی خدمت کا شوق پیدا ہوا اور وہ ان حضرات کا کماحقہ احترام بھی کریں، اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش بھی کریں۔ (6) جس شخص کے متعلق یہ خیال ہو کہ اس کی تعریف سے اس کے دل میں تکبر اور فخر کے جذبات پیدا نہیں ہوں گے، کسی حکمت کے پیش نظر اس کی موجودگی میں بھی اس کی تعریف کی جا سکتی ہے۔ عام حالات میں کسی کے سامنے اس کی تعریف کرنے سے پرہیز کرنا شچاہیے۔ (7) اس حدیث میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی افضلیت کا صرف ایک پہلو (انفاق فی سبیل اللہ) ذکر کیا گیا ہے، جبکہ آپ رضی اللہ عنہ کی افضلیت کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں جو مختلف احادیث میں مذکور ہیں۔
(1) ہمارے فاضل محقق نے اس روایت کو سندا ضعیف کہا ہے، تاہم شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے مجموعی طرق کو سامنے رکھتے ہوئے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (الصحیحۃ۔ حدیث:2718) (2) اللہ کا قرب نیک اعمال سے حاصل ہوتا ہے۔ جس قدر نیکیاں زیادہ ہوں گی اسی قدر مقام بھی بلند ہو گا، (3) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا ایمان بعد کے لوگوں سے زیادہ اعلیٰ اور اکمل تھا، اس لیے ان کے اعمال میں خلوص بھی زیادہ تھا، چنانچہ ان کے بظاہر معمولی اعمال بھی بعد والوں کے بظاہر عظیم اعمال سے افضل شمار ہوئے۔ خصوصا جن حالات میں ان حضرات نے مالی قربانیاں دیں بعد کے مسلمانوں کو وہ حالات پیش نہین آئے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لا تسبوا اصحابي‘ فلو ان احدكم انفق مثل اُحد ذهبا ما بلغ مد احدهم ولا نصيفه) (صحيح البخاري‘ فضائل اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم‘ باب قول النبي صلي الله عليه وسلم لو كنت متخذا خليلا‘ حديث:3673) میرے صھابہ کو برا نہ کہو، تم میں سے کوئی اگر اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے، تو کسی صحابی کے ایک مُد بلکہ آدھے مُد (کے ثواب) تک نہیں پہنچ سکتا۔ (4) اس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خلوص اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی محبت بھی ظاہر ہے کہ اپنے اعمال پر فخر نہیں کیا، بلکہ اپنے مال کو نبی کریم علیہ السلام ہی کا مال قرار دیا، جیسے کسی شاعر نے کہا ہے
منت منہ کہ خدمت سلطان مے کنی
منت ازو شناس کہ بخدمت گذاشت
احسان نہ جتلا کہ تو بادشاہ کی خدمت کر رہا ہے، بلکہ اس کا احسان سمجھ کہ اس نے تجھے اپنی خدمت میں رکھ چھوڑا ہے۔ (5) امام، قائد یا لیڈر کو چاہیے کہ اپنے ساتھیوں کی خدمات کو اہمیت دے اور ان کا اعتراٖ کرے تاکہ دوسروں کو بھی دین کی خدمت کا شوق پیدا ہوا اور وہ ان حضرات کا کماحقہ احترام بھی کریں، اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش بھی کریں۔ (6) جس شخص کے متعلق یہ خیال ہو کہ اس کی تعریف سے اس کے دل میں تکبر اور فخر کے جذبات پیدا نہیں ہوں گے، کسی حکمت کے پیش نظر اس کی موجودگی میں بھی اس کی تعریف کی جا سکتی ہے۔ عام حالات میں کسی کے سامنے اس کی تعریف کرنے سے پرہیز کرنا شچاہیے۔ (7) اس حدیث میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی افضلیت کا صرف ایک پہلو (انفاق فی سبیل اللہ) ذکر کیا گیا ہے، جبکہ آپ رضی اللہ عنہ کی افضلیت کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں جو مختلف احادیث میں مذکور ہیں۔