Book - حدیث 92

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِي الْقَدَرِ حسن حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ مَجُوسَ هَذِهِ الْأُمَّةِ الْمُكَذِّبُونَ بِأَقْدَارِ اللَّهِ، إِنْ مَرِضُوا فَلَا تَعُودُوهُمْ، وَإِنْ مَاتُوا فَلَا تَشْهَدُوهُمْ، وَإِنْ لَقِيتُمُوهُمْ فَلَا تُسَلِّمُوا عَلَيْهِمْ»

ترجمہ Book - حدیث 92

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: تقدیر سے متعلق احکام ومسائل حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:‘‘ اس امت کے مجوسی وہ ہیں اللہ کی تقدیر کا انکار کرتے ہیں، اگر وہ بیمار ہو جائیں، تو ان کی عیادت نہ کرو، اگر مر جائیں تو ان کے جنازے میں نہ جاؤ، اور اگر ان سے ملاقات ہو تو انہیں سلام نہ کہو۔’’
تشریح : (1) ہمارے فاضل محقق نے اس روایت کو سندا ضعیف قرار دیا ہے، تاہم شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے شواہد کی بنیاد پر اسی روایت کر آخری جملے (وان لقيتموهم فلا...) کے بغیر حسن کہا ہے۔ دیکھئے: (تخريض احاديث المشكوة‘ حديث:107‘ وضلال الجنة في تخريج السنة‘ حديث:328) (2) منکرین تقدیر کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف خیر کا خالق ہے، شر کا خالق انسان ہے۔ اس طرح انہوں نے گویا ہر انسان کو خالق مان لیا۔ مجوسی دو خداؤں کے قائل ہیں ایک خیر کا خالق(یزدان) اور ایک برائی کا خالق (اہرمن۔) اس طرح یہ دونوں (منکرین تقدیر اور مجوس) شر کا خالق اللہ تعالیٰ کے بجائے کسی اور کو مانتے ہیں جب کہ اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکی اور بدی، خیر اور شر دونوں کا خالق ہے، اور بندہ ان اعمال کا فاعل اور کرتکب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے بندے کو نیکی اور بدی کرنے کی طاقت بخشی ہےاور اسے دونوں مین سے کوئی ایک راستہ منتخب کرنے کا اختیار دیا ہے۔ کوئی فرد نفس امارہ اور شیطان کے دھوکے میں آ کر غلط راہ منتخب کر لیتا ہے اور اللہ کو ناراض کر کے سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔ کوئی اللہ کی توفیق سے سیدھی راہ پر چلتا اور اللہ کو راضی کر کے اس کے انعامات کا مستحق بن جاتا ہے۔ (1) ہمارے فاضل محقق نے اس روایت کو سندا ضعیف قرار دیا ہے، تاہم شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے شواہد کی بنیاد پر اسی روایت کر آخری جملے (وان لقيتموهم فلا...) کے بغیر حسن کہا ہے۔ دیکھئے: (تخريض احاديث المشكوة‘ حديث:107‘ وضلال الجنة في تخريج السنة‘ حديث:328) (2) منکرین تقدیر کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف خیر کا خالق ہے، شر کا خالق انسان ہے۔ اس طرح انہوں نے گویا ہر انسان کو خالق مان لیا۔ مجوسی دو خداؤں کے قائل ہیں ایک خیر کا خالق(یزدان) اور ایک برائی کا خالق (اہرمن۔) اس طرح یہ دونوں (منکرین تقدیر اور مجوس) شر کا خالق اللہ تعالیٰ کے بجائے کسی اور کو مانتے ہیں جب کہ اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکی اور بدی، خیر اور شر دونوں کا خالق ہے، اور بندہ ان اعمال کا فاعل اور کرتکب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے بندے کو نیکی اور بدی کرنے کی طاقت بخشی ہےاور اسے دونوں مین سے کوئی ایک راستہ منتخب کرنے کا اختیار دیا ہے۔ کوئی فرد نفس امارہ اور شیطان کے دھوکے میں آ کر غلط راہ منتخب کر لیتا ہے اور اللہ کو ناراض کر کے سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔ کوئی اللہ کی توفیق سے سیدھی راہ پر چلتا اور اللہ کو راضی کر کے اس کے انعامات کا مستحق بن جاتا ہے۔