Book - حدیث 90

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِي الْقَدَرِ حسن حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَزِيدُ فِي الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ، وَلَا يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُحْرَمُ الرِّزْقَ بِخَطِيئَةٍ يَعْمَلُهَا»

ترجمہ Book - حدیث 90

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: تقدیر سے متعلق احکام ومسائل حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:‘‘صرف نیکی ہی عمر میں اضافے کا باعث ہوتی ہے اور تقدیر کو محض دعا ٹالتی ہے ۔بلا شبہ انسان کو بعض اوقات ایک گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ ’’
تشریح : (1) یہ روایت بعض محققین کے نزدیک حسن درجے کی ہے جو عندالمحدثین قابل حجت ہوتی ہے، البتہ اس حدیث کا آخری حصہ (وان الرجل...) انسان اپنے برے عمل کی وجہ سے رزق سے محروم ہو جاتا ہے، کسی معتبر سند سے ثابت نہیں بلکہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ موضوع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (الصحيحة‘ حديث:154‘ والضعيفة‘ حديث:179) (2) نیکی کا ثواب جس طرح آخرت میں بلندی درجات اور ابدی نعمتوں کا باعث ہوتا ہے، اسی طرح نیکی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی نعمت، عزت اور مزید نیکی کی توفیق سے نوازتا ہے، اسی طرح برے عمل کی سزا دنیا اور آخرت دونوں میں ملتی ہے، اِلا یہ کہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے۔ (3) عمر مین اضافے کے مختلف مفہوم بیان کیے گئے ہیں۔ (ا) یعنی عمر میں برکت ہوتی ہے اور وہ اچھے کاموں میں صرف ہوتی اور ضائع ہونے سے بچ جاتی ہے۔ (ب) نیکیوں کی توفیق ملتی ہے جس کی وجہ سے مرنے کے بعد بھی ثواب پہنچتا رہتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (وَالبـقِيـتُ الصّـلِحـتُ خَيرٌ‌ عِندَ رَ‌بِّكَ ثَوابًا وَخَيرٌ‌ أَمَلًا) (الکھف:46) باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے ہاں ثواب کے لحاظ سے بہتر ہیں اور امید کے اعتبار سے اچھی ہیں۔ (ج) فرشتوں کو یا ملک الموت کو اس کی جو عمر معلوم تھی، اس میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ فرشتوں کے لحاظ سے اضافہ ہے، اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم تھا کہ یہ شخص فلاں نیکی کرے گا جس کے انعام کے طور پر اس کی عمر میں اس قدر اضافہ کر دیا جائے گا۔ (4) تقدیر بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ جس مصیبت سے انسان ڈرتا ہے، دعا کی برکت سے رک جاتی ہے۔ اور آئی ہوئی مصیبت رفع ہو جاتی ہے۔ جس طرح حضرت یونس علیہ السلام کو دعا کی وجہ سے مچھلی کے پیٹ سے نجات مل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (فَلَولا أَنَّهُ كانَ مِنَ المُسَبِّحينَ - لَلَبِثَ فى بَطنِهِ إِلى يَومِ يُبعَثونَ) (الصفت: 143،144) اگر وہ (اللہ کی) پاکیزگی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہو جاتے، تو لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک اس (مچھلی) کے پیٹ ہی میں رہتے۔ یہاں بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تبدیلی فرشتوں کے علم کے مطابق تبدیلی ہے، اللہ کے علم میں تبدیلی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم تھا کہ فلاں شخص دعا کرے گا، پھر اس کی مشکل حل ہو جائے گی۔ (5) اس میں دعا کی ترغیب پائی جاتی ہے، اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دعا بھی جائز اسباب میں سے ہے جسے اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں بلکہ عین توکل ہے۔ (1) یہ روایت بعض محققین کے نزدیک حسن درجے کی ہے جو عندالمحدثین قابل حجت ہوتی ہے، البتہ اس حدیث کا آخری حصہ (وان الرجل...) انسان اپنے برے عمل کی وجہ سے رزق سے محروم ہو جاتا ہے، کسی معتبر سند سے ثابت نہیں بلکہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ موضوع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (الصحيحة‘ حديث:154‘ والضعيفة‘ حديث:179) (2) نیکی کا ثواب جس طرح آخرت میں بلندی درجات اور ابدی نعمتوں کا باعث ہوتا ہے، اسی طرح نیکی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی نعمت، عزت اور مزید نیکی کی توفیق سے نوازتا ہے، اسی طرح برے عمل کی سزا دنیا اور آخرت دونوں میں ملتی ہے، اِلا یہ کہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے۔ (3) عمر مین اضافے کے مختلف مفہوم بیان کیے گئے ہیں۔ (ا) یعنی عمر میں برکت ہوتی ہے اور وہ اچھے کاموں میں صرف ہوتی اور ضائع ہونے سے بچ جاتی ہے۔ (ب) نیکیوں کی توفیق ملتی ہے جس کی وجہ سے مرنے کے بعد بھی ثواب پہنچتا رہتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (وَالبـقِيـتُ الصّـلِحـتُ خَيرٌ‌ عِندَ رَ‌بِّكَ ثَوابًا وَخَيرٌ‌ أَمَلًا) (الکھف:46) باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے ہاں ثواب کے لحاظ سے بہتر ہیں اور امید کے اعتبار سے اچھی ہیں۔ (ج) فرشتوں کو یا ملک الموت کو اس کی جو عمر معلوم تھی، اس میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ فرشتوں کے لحاظ سے اضافہ ہے، اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم تھا کہ یہ شخص فلاں نیکی کرے گا جس کے انعام کے طور پر اس کی عمر میں اس قدر اضافہ کر دیا جائے گا۔ (4) تقدیر بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ جس مصیبت سے انسان ڈرتا ہے، دعا کی برکت سے رک جاتی ہے۔ اور آئی ہوئی مصیبت رفع ہو جاتی ہے۔ جس طرح حضرت یونس علیہ السلام کو دعا کی وجہ سے مچھلی کے پیٹ سے نجات مل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (فَلَولا أَنَّهُ كانَ مِنَ المُسَبِّحينَ - لَلَبِثَ فى بَطنِهِ إِلى يَومِ يُبعَثونَ) (الصفت: 143،144) اگر وہ (اللہ کی) پاکیزگی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہو جاتے، تو لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک اس (مچھلی) کے پیٹ ہی میں رہتے۔ یہاں بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تبدیلی فرشتوں کے علم کے مطابق تبدیلی ہے، اللہ کے علم میں تبدیلی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم تھا کہ فلاں شخص دعا کرے گا، پھر اس کی مشکل حل ہو جائے گی۔ (5) اس میں دعا کی ترغیب پائی جاتی ہے، اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دعا بھی جائز اسباب میں سے ہے جسے اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں بلکہ عین توکل ہے۔