Book - حدیث 85

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِي الْقَدَرِ حسن صحیح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَصْحَابِهِ، وَهُمْ يَخْتَصِمُونَ فِي الْقَدَرِ، فَكَأَنَّمَا يُفْقَأُ فِي وَجْهِهِ، حَبُّ الرُّمَّانِ مِنَ الْغَضَبِ، فَقَالَ: «بِهَذَا أُمِرْتُمْ، أَوْ لِهَذَا خُلِقْتُمْ، تَضْرِبُونَ الْقُرْآنَ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ، بِهَذَا هَلَكَتِ الْأُمَمُ قَبْلَكُمْ» قَالَ: فَقَالَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، مَا غَبَطْتُ نَفْسِي بِمَجْلِسٍ تَخَلَّفْتُ فِيهِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا غَبَطْتُ نَفْسِي بِذَلِكَ الْمَجْلِسِ وَتَخَلُّفِي عَنْهُ

ترجمہ Book - حدیث 85

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: تقدیر سے متعلق احکام ومسائل حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک روز رسول اللہ ﷺ باہر صحابہ کے پاس تشریف لائے تو وہ تقدیر کے بارے میں بحث کر رہے تھے۔ آپ کا چہرہٴ مبارک غصے سے اس قدر سرخ ہوگیا، گویا اس پر انار کے دانے نچوڑ دیے گئے ہیں۔( تب) نبی ﷺ نے فرمایا: ‘‘کیا تمہیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے؟ یا کیا تمہیں اس کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے؟ تم قرآن کی آیات کو ایک دوسری سے ٹکرا رہے ہو۔ تم سے پہلی امتیں اسی وجہ سے تباہ ہوئیں تھیں۔’’ سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ نے فرمایا: مجھے رسول اللہ ﷺ کی کسی مجلس سے غیر حاضر رہنے پر خوشی نہیں ہوئی جس طرح اس مجلس میں موجود نہ ہونے پر خوشی ہوئی۔
تشریح : (1) تقدیر اسرار الہی میں سے ایک سِر (راز) ہے، اس پر مجمل ایمان لانا کافی ہے، اسی طرح دوسرے غیبی امور کے بارے میں بھی جس قدر بتا دیا گیا، اسے مان لینا کافی ہے اور جس چیز کی وضاحت نہیں کی گئی، اس کی تفصیل معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔(2) قرآن و حدیث کی نصوص کی وضاحت اس انداز سے کرنی چاہیے کہ ان میں ٹکراؤ پیدا نہ ہو، ورنہ امت میں اختلاف و افتراق پیدا ہوتا ہے اور قرآن و حدیث پر ایمان مین فرق آنے کا اندیشہ ہے۔ (3) قرآن و حدیث کے مطالعے کا اصل مقصد اخلاق و مل کی اصلاح ہے۔ اگر کوئی شخص محض زور خطابت کے اظہار کے لیے یا اپنے علم و فضل کا رعب جمانے کے لیے پیچیدہ مسائل میں مشغول ہوتا ہے، تو یہ اصل مقصد کے خلاف اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہے۔ (4) نصیحت کرتے ہوئے موقع محل کی مناسبت سے بعض اوقات غصے کا اظہار بھی کیا جا سکتا ہے، خصوصا جب کہ نصیحت کرنے والا قابل احترام شخصیت کا حامل ہو اور سامعین پر اس کے غصے کا منفی اثر پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔ (5) حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اس مجلس میں موجود نہیں تھے۔ کسی دوسرے صحابی نے انہیں یہ واقعہ سنایا، تاہم محدثین کے اصول کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث براہ راست سننے والے صحابہ کا نام نہ بھی لیا جائے لیکن اس سے سن کر روایت کرنے والا بھی صحابی ہو تو ایسی حدیث بالاتفاق صحیح ہوتی ہے کیونکہ تمام صحابہ عادل (قابل قبول اور قابل اعتماد ) ہیں۔ (6) صحابی کو اس مجلس سے غیر حاضری پر اس لیے خوشی ہوئی کہ حاضرین پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خفگی کا اظہار فرمایا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مومن کو اگر نیکی کی توفیق مل جائے یا وہ کسی گناہ سے بچ جائے تو اس پر خوشی کا اظہار کرنا فخر و ریا میں شامل نہیں بلکہ نیکی کی محبت اور گناہ سے نفرت کی علامت ہے جو ایمان کا ایک حصہ ہے۔ (1) تقدیر اسرار الہی میں سے ایک سِر (راز) ہے، اس پر مجمل ایمان لانا کافی ہے، اسی طرح دوسرے غیبی امور کے بارے میں بھی جس قدر بتا دیا گیا، اسے مان لینا کافی ہے اور جس چیز کی وضاحت نہیں کی گئی، اس کی تفصیل معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔(2) قرآن و حدیث کی نصوص کی وضاحت اس انداز سے کرنی چاہیے کہ ان میں ٹکراؤ پیدا نہ ہو، ورنہ امت میں اختلاف و افتراق پیدا ہوتا ہے اور قرآن و حدیث پر ایمان مین فرق آنے کا اندیشہ ہے۔ (3) قرآن و حدیث کے مطالعے کا اصل مقصد اخلاق و مل کی اصلاح ہے۔ اگر کوئی شخص محض زور خطابت کے اظہار کے لیے یا اپنے علم و فضل کا رعب جمانے کے لیے پیچیدہ مسائل میں مشغول ہوتا ہے، تو یہ اصل مقصد کے خلاف اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہے۔ (4) نصیحت کرتے ہوئے موقع محل کی مناسبت سے بعض اوقات غصے کا اظہار بھی کیا جا سکتا ہے، خصوصا جب کہ نصیحت کرنے والا قابل احترام شخصیت کا حامل ہو اور سامعین پر اس کے غصے کا منفی اثر پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔ (5) حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اس مجلس میں موجود نہیں تھے۔ کسی دوسرے صحابی نے انہیں یہ واقعہ سنایا، تاہم محدثین کے اصول کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث براہ راست سننے والے صحابہ کا نام نہ بھی لیا جائے لیکن اس سے سن کر روایت کرنے والا بھی صحابی ہو تو ایسی حدیث بالاتفاق صحیح ہوتی ہے کیونکہ تمام صحابہ عادل (قابل قبول اور قابل اعتماد ) ہیں۔ (6) صحابی کو اس مجلس سے غیر حاضری پر اس لیے خوشی ہوئی کہ حاضرین پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خفگی کا اظہار فرمایا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مومن کو اگر نیکی کی توفیق مل جائے یا وہ کسی گناہ سے بچ جائے تو اس پر خوشی کا اظہار کرنا فخر و ریا میں شامل نہیں بلکہ نیکی کی محبت اور گناہ سے نفرت کی علامت ہے جو ایمان کا ایک حصہ ہے۔