كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابٌ إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا صحیح حَدَّثَنَا جَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ أُكَيْمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، وَزَادَ فِيهِ: قَالَ: فَسَكَتُوا بَعْدُ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ الْإِمَامُ
کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ
باب: جب امام قرأت کرےتو خاموش رہو
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی ۔۔۔۔ اس کے بعد راوی نے پوری حدیث ذکر کی، اس کے آخر میں یہ اجافہ ہے۔ اس کے بعد صحابہ نے ان نمازوں میں خاموشی اختیار فرمائی جن میں امام بلند آواز سے قراءت کرتا ہے۔
تشریح :
۔1۔ان دونوں روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ سورۃ فاتحہ کے علاوہ تلاوت کی ممانعت جہری نمازوں میں ہے۔ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔
فلا تقرءوا بشئ من القرآن اذا جهرت الامام القرآن
(سنن ابی دائود۔الصلاۃ۔ابواب تفریح استفتاح الصلاۃ باب من ترک القراءت فی صلاتہ بفاتحۃ الکتاب۔حدیث 824)
,جب میں جہری قراءت کروں تو صرف سورۃ فاتحہ پڑھا کرو۔, البتہ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں مذکور ہے۔ کہ ایسا ہی واقعہ کسی سری نماز میں بھی پیش آیا تھا۔کہ ظہر یا عصر کی نماز میں کسی مقتدی نے (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى) پڑھی تو رسول اللہ ﷺ نے نا پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔(صحیح مسلم۔الصلاۃ باب نہی الماموم عن جھرۃ بالقراۃ خلف امامہ حدیث 398)2۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم کی شرح میں اس حدیث پر جو عنوان زکر فرمایا ہے۔اس سے اشارہ ملتا ہے کہ مقتدی نے سورۃ الاعلیٰ بلند آواز سے پڑھی تھی۔کشمکش ک الفاظ سے بھی اس کا اشارہ ملتا ہے۔واللہ اعلم۔خلاصہ یہ ہے کہ جہری نماز میں سورۃ فاتحہ کے بعد مقتدی کو کچھ نہیں پڑھنا چاہیے۔البتہ سری نماز میں دوسری سورت پڑھ سکتا ہے۔لیکن بلند آواز سے نہ پڑھے۔
۔1۔ان دونوں روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ سورۃ فاتحہ کے علاوہ تلاوت کی ممانعت جہری نمازوں میں ہے۔ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔
فلا تقرءوا بشئ من القرآن اذا جهرت الامام القرآن
(سنن ابی دائود۔الصلاۃ۔ابواب تفریح استفتاح الصلاۃ باب من ترک القراءت فی صلاتہ بفاتحۃ الکتاب۔حدیث 824)
,جب میں جہری قراءت کروں تو صرف سورۃ فاتحہ پڑھا کرو۔, البتہ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں مذکور ہے۔ کہ ایسا ہی واقعہ کسی سری نماز میں بھی پیش آیا تھا۔کہ ظہر یا عصر کی نماز میں کسی مقتدی نے (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى) پڑھی تو رسول اللہ ﷺ نے نا پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔(صحیح مسلم۔الصلاۃ باب نہی الماموم عن جھرۃ بالقراۃ خلف امامہ حدیث 398)2۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم کی شرح میں اس حدیث پر جو عنوان زکر فرمایا ہے۔اس سے اشارہ ملتا ہے کہ مقتدی نے سورۃ الاعلیٰ بلند آواز سے پڑھی تھی۔کشمکش ک الفاظ سے بھی اس کا اشارہ ملتا ہے۔واللہ اعلم۔خلاصہ یہ ہے کہ جہری نماز میں سورۃ فاتحہ کے بعد مقتدی کو کچھ نہیں پڑھنا چاہیے۔البتہ سری نماز میں دوسری سورت پڑھ سکتا ہے۔لیکن بلند آواز سے نہ پڑھے۔