Book - حدیث 846

كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابٌ إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا حسن صحیح - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا، وَإِذَا قَالَ: {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 7] ، فَقُولُوا: آمِينَ، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا، فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعِينَ

ترجمہ Book - حدیث 846

کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ باب: جب امام قرأت کرےتو خاموش رہو سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’امام اس لئے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، چنانچہ جب وہ اللہ اکبر کہتے تو تم اللہ اکبر کہو، جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو، اور جب وہ ( غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ ) پڑھے تو آمین کہو، جب وہ رکوع کرے تو رکوع کرو، جب وہ ( سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہے تو کہو(اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ) ’’اے اللہ! اے ہمارے رب! تیرے ہی لئے تعریفیں ہیں‘‘جب وہ سجدہ کرے تو تم سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم سب بیٹھ کر نماز پڑھو۔‘‘
تشریح : 1۔مقتدی کو اپنی حرکات وسکنات میں امام اسے آگے بڑھنا نہیں ہے۔ بلکہ امام سے پیچھے رہنا چاہیے۔2۔امام کی قراءت کے وقت خاموش رہنے کا مطلب یہ ہے۔ کہ جب سورۃ فاتحہ کے بعد امام دوسری صورت پڑھے تو مقتدی خاموشی سے سنیں۔وہ کوئی دوسری سورت نہ پڑھیں۔سورہ فاتحہ کے بارے میں حضرت ابو یرہرہرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں گزر چکا ہے۔کہ مقتدی کو فاتحہ ضرور پڑھنی چاہیے۔دیکھئے۔(حدیث 838)3۔جب امام بیٹھ کر نماز پڑھائے۔تو مقتدیوں کا بھی کوئی اور عذر نہ ہونے کے باوجود بیٹھ کر نماز ادا کرنے کا حکم منسوخ ہے۔نبی اکرم ﷺنے اپنی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں بیماری کی شدت کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ک ساتھ کھڑے تھے۔ اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے بھی کھڑے ہوکر نماز پڑھی۔رسول اللہ ﷺ نے ضعف کی وجہ سے بلند آواز سے تکبیر نہیں کہہ سکتے تھے۔اس لئے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپﷺ کی تکبیر سن کربلند آواز میں تکبیر کہتے تھے۔ تاکہ تمام نمازی سن سکیں۔دیکھئے۔(صحیح البخاری الاذان باب حد المریض ان یشھد الجماعۃحدیث 664) 1۔مقتدی کو اپنی حرکات وسکنات میں امام اسے آگے بڑھنا نہیں ہے۔ بلکہ امام سے پیچھے رہنا چاہیے۔2۔امام کی قراءت کے وقت خاموش رہنے کا مطلب یہ ہے۔ کہ جب سورۃ فاتحہ کے بعد امام دوسری صورت پڑھے تو مقتدی خاموشی سے سنیں۔وہ کوئی دوسری سورت نہ پڑھیں۔سورہ فاتحہ کے بارے میں حضرت ابو یرہرہرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں گزر چکا ہے۔کہ مقتدی کو فاتحہ ضرور پڑھنی چاہیے۔دیکھئے۔(حدیث 838)3۔جب امام بیٹھ کر نماز پڑھائے۔تو مقتدیوں کا بھی کوئی اور عذر نہ ہونے کے باوجود بیٹھ کر نماز ادا کرنے کا حکم منسوخ ہے۔نبی اکرم ﷺنے اپنی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں بیماری کی شدت کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ک ساتھ کھڑے تھے۔ اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے بھی کھڑے ہوکر نماز پڑھی۔رسول اللہ ﷺ نے ضعف کی وجہ سے بلند آواز سے تکبیر نہیں کہہ سکتے تھے۔اس لئے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپﷺ کی تکبیر سن کربلند آواز میں تکبیر کہتے تھے۔ تاکہ تمام نمازی سن سکیں۔دیکھئے۔(صحیح البخاری الاذان باب حد المریض ان یشھد الجماعۃحدیث 664)