كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ، أَنَّ أَبَا السَّائِبِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، فَهِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ» فَقُلْتُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، فَإِنِّي أَكُونُ أَحْيَانًا وَرَاءَ الْإِمَامِ، فَغَمَزَ ذِرَاعِي وَقَالَ: يَا فَارِسِيُّ، اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ
کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ
باب: امام کے پیچھے (سورہ فاتحہ)پڑھنا
سیدنا ابو سائب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں ام القرآن (سورہٴ فاتحہ) نہ پڑھی تو وہ (نماز) ناقص ہے، نا مکمل ہے۔ (ابو سائب ؓ فرماتے ہیں) میں نے عرض کیا: سیدنا ابو ہریرہ ؓ !کبھی میں امام کے پیچھے بھی ہوتا ہوں (تو پھر بھی پڑھوں؟) انہوں نے میرے بازو کو دبایا اور فرمایا: اے فارسی ! اسے اپنے جی میں (آہستہ) پڑھ لے۔
تشریح :
۔1۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ نماز کارکن ہے۔مقتدی اور اکیلے دونوں پر فرض ہے۔کہ سورۃ فاتحہ پڑھیں۔2۔نقص دو طرح کاہوتا ہے۔مثلا ایک انسان کا بازو یا پائوں کٹ جائے تو انسان زندہ رہ سکتاہے۔اگرچہ وہ ناقص ہوگا۔لیکن اگر کسی کا سر کاٹ دیا جائے۔یا دل نکال دیا جائے تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ سورہ فاتحہ نہ پڑھنے سے ہونے واے نقص کو عام طور پر پہلی قسم کا نقص قرار دیا جاتا ہے۔لیکن یہ قول درست نہیں کیونکہ مرفوع حدیث سے ثابت ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا۔(لاتجزي صلاة لايقراء فيها بفاتحة الكتاب),جس نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے۔وہ کفایت نہیں کرتی۔(صحیح اب خذیمہ الصلاۃ جماع ابواب الاذان والاقامۃ با ب الزکر الدلیل علی ان الخداج ۔۔۔ھو النقص الذی لاتجزی الصلواۃ معہ۔۔۔حدیث 490)کفایت نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی پڑھی ہوئی نماز کافی نہیں دوبارہ پڑھنے پڑے گی۔3۔(پڑھنا)(اقراء بها في نفسك),دل میں پڑھ لے۔,اس کا مطلب زبان کو حرکت دیے بغیر دل میں سوچنا نہیں۔کیونکہ اسے قراءت (پڑھنا) نہیں کہا جاتا۔بلکہ اس طرح پڑھنا مراد ہے۔کہ ساتھ کھڑا ہوا نمازی آواز نہ سنے۔اس طرح پڑھنا استماع اور انصات کے خلاف بھی نہیں ہے۔جیسا کہ قراۃ فاتحہ خلف الامام کو استماع اور انصات کے خلاف باور کراکے اس حکم نبویﷺسے انکار کیا جاتا ہے۔
۔1۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ نماز کارکن ہے۔مقتدی اور اکیلے دونوں پر فرض ہے۔کہ سورۃ فاتحہ پڑھیں۔2۔نقص دو طرح کاہوتا ہے۔مثلا ایک انسان کا بازو یا پائوں کٹ جائے تو انسان زندہ رہ سکتاہے۔اگرچہ وہ ناقص ہوگا۔لیکن اگر کسی کا سر کاٹ دیا جائے۔یا دل نکال دیا جائے تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ سورہ فاتحہ نہ پڑھنے سے ہونے واے نقص کو عام طور پر پہلی قسم کا نقص قرار دیا جاتا ہے۔لیکن یہ قول درست نہیں کیونکہ مرفوع حدیث سے ثابت ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا۔(لاتجزي صلاة لايقراء فيها بفاتحة الكتاب),جس نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے۔وہ کفایت نہیں کرتی۔(صحیح اب خذیمہ الصلاۃ جماع ابواب الاذان والاقامۃ با ب الزکر الدلیل علی ان الخداج ۔۔۔ھو النقص الذی لاتجزی الصلواۃ معہ۔۔۔حدیث 490)کفایت نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی پڑھی ہوئی نماز کافی نہیں دوبارہ پڑھنے پڑے گی۔3۔(پڑھنا)(اقراء بها في نفسك),دل میں پڑھ لے۔,اس کا مطلب زبان کو حرکت دیے بغیر دل میں سوچنا نہیں۔کیونکہ اسے قراءت (پڑھنا) نہیں کہا جاتا۔بلکہ اس طرح پڑھنا مراد ہے۔کہ ساتھ کھڑا ہوا نمازی آواز نہ سنے۔اس طرح پڑھنا استماع اور انصات کے خلاف بھی نہیں ہے۔جیسا کہ قراۃ فاتحہ خلف الامام کو استماع اور انصات کے خلاف باور کراکے اس حکم نبویﷺسے انکار کیا جاتا ہے۔