Book - حدیث 836

كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ الْقِرَاءَةِ فِي صَلَاةِ الْعِشَاءِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ قَالَ: أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ صَلَّى بِأَصْحَابِهِ الْعِشَاءَ، فَطَوَّلَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «اقْرَأْ بِالشَّمْسِ وَضُحَاهَا، وَسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى، وَاقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ»

ترجمہ Book - حدیث 836

کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ باب: نماز عشاء میں قرأت سیدنا جابر ؓ سے روایت کہ سیدنا معاذ بن جبل ؓ نے اپنے مقتدیوں کو عشاء کی نماز پڑھائی اور اس میں طویل قراءت کی تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’تم (ایسی سورتیں) پڑھا کرو: (وَالشَّمْسِ وَضُحٰىهَا-سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى-وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى-اور اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ )
تشریح : ۔1۔حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عشاء کی نماز نبی اکرمﷺ کی اقتداء میں ادا کرنے کے بعد اپنے محلے کی مسجد میں جاکر نماز کی امامت کیا کرتے تھے۔ایسی صورت میں جب کہ ان کی نماز مسجد نبوی ﷺ کی نماز سے بھی لیٹ ادا ہوتی تھی۔طویل قراءت لوگوں کےلئے مزید مشقت اور گرانی کا باعث ہوتی حتیٰ کہ بعض لوگوں نے آکر نبی ﷺ سے ان کی شکایت بھی کی۔جس پر آپﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تنبیہ فرمائی۔(صحیح مسلم الصلاۃ باب القراۃ فی العشاء حدیث 465)2،۔اس موقع پر شکایت کرنے والے صاحب کو ایک اور وجہ سے بھی مشقت ہوئی۔وہ محنت مشقت سے روزی کمانے والے آدمی تھے۔مزدوری سے فارغ ہوکر آئے۔دو اونٹ ساتھ تھے۔دیکھا مسجد میں جماعت کھڑی ہے۔تو نماز میں شامل ہوگئے۔کچھ دن بھر کی تھکاوٹ کچھ اونٹوں کا فکر کچھ جلدی گھر پہنچ کرکھانے پینے اور آرام کی خواہش۔ادھر حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورہ بقرہ شروع کردی۔اب معلوم نہیں حضرت معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ تلاوت سے لطف وانداز ہوتے ہوئے کہاں تک پڑھتے چلے جایئں۔چنانچہ اس صحابی نے جماعت سے الگ ہوکر اپنی نماز پڑھی اور چلے گئے۔حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے نامناسب خیال کیا۔اور تنقید کے طور پرکچھ ارشاد فرمایا۔ انھیں خبر ملی تو رسول اللہ ﷺ سے جاشکایت کی۔تب آپﷺ نے یہ بات فرمائی ۔دیکھئے۔(صحیح البخاری الاذان باب من شکاامامہ اذا طول حدیث 705)3۔امام کو نماز میں کمزور اور ضرورت مند مقتدیوں کالہاظ رکھنا چاہیے۔4۔اگرکسی سے شکایت ہوتو اس کے متعلق کسی اعلیٰ شخصیت کو بتانا غیبت میں شامل نہیں۔کیونکہ اس سے غلطی کی تلافی اور اس کی اصلاح مقصود ہے۔5۔عشاء کی نماز میں قراءت مختصر ہونی چاہیے۔اس میں مذکورہ بالاصورتیں یا اس مقدار میں تلاوت کرنا مسنون ہے۔ ۔1۔حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عشاء کی نماز نبی اکرمﷺ کی اقتداء میں ادا کرنے کے بعد اپنے محلے کی مسجد میں جاکر نماز کی امامت کیا کرتے تھے۔ایسی صورت میں جب کہ ان کی نماز مسجد نبوی ﷺ کی نماز سے بھی لیٹ ادا ہوتی تھی۔طویل قراءت لوگوں کےلئے مزید مشقت اور گرانی کا باعث ہوتی حتیٰ کہ بعض لوگوں نے آکر نبی ﷺ سے ان کی شکایت بھی کی۔جس پر آپﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تنبیہ فرمائی۔(صحیح مسلم الصلاۃ باب القراۃ فی العشاء حدیث 465)2،۔اس موقع پر شکایت کرنے والے صاحب کو ایک اور وجہ سے بھی مشقت ہوئی۔وہ محنت مشقت سے روزی کمانے والے آدمی تھے۔مزدوری سے فارغ ہوکر آئے۔دو اونٹ ساتھ تھے۔دیکھا مسجد میں جماعت کھڑی ہے۔تو نماز میں شامل ہوگئے۔کچھ دن بھر کی تھکاوٹ کچھ اونٹوں کا فکر کچھ جلدی گھر پہنچ کرکھانے پینے اور آرام کی خواہش۔ادھر حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورہ بقرہ شروع کردی۔اب معلوم نہیں حضرت معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ تلاوت سے لطف وانداز ہوتے ہوئے کہاں تک پڑھتے چلے جایئں۔چنانچہ اس صحابی نے جماعت سے الگ ہوکر اپنی نماز پڑھی اور چلے گئے۔حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے نامناسب خیال کیا۔اور تنقید کے طور پرکچھ ارشاد فرمایا۔ انھیں خبر ملی تو رسول اللہ ﷺ سے جاشکایت کی۔تب آپﷺ نے یہ بات فرمائی ۔دیکھئے۔(صحیح البخاری الاذان باب من شکاامامہ اذا طول حدیث 705)3۔امام کو نماز میں کمزور اور ضرورت مند مقتدیوں کالہاظ رکھنا چاہیے۔4۔اگرکسی سے شکایت ہوتو اس کے متعلق کسی اعلیٰ شخصیت کو بتانا غیبت میں شامل نہیں۔کیونکہ اس سے غلطی کی تلافی اور اس کی اصلاح مقصود ہے۔5۔عشاء کی نماز میں قراءت مختصر ہونی چاہیے۔اس میں مذکورہ بالاصورتیں یا اس مقدار میں تلاوت کرنا مسنون ہے۔