Book - حدیث 809

كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ وَضْعِ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِي الصَّلَاةِ حسن صحیح حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يَؤُمُّنَا فَيَأْخُذُ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ»

ترجمہ Book - حدیث 809

کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ باب: نماز میں بائیں ہاتھ پردایاں ہاتھ رکھنا سیدنا ہُلب ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ ہمیں نماز پڑھاتے تھے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑ لیتے تھے۔
تشریح : 1۔اس سے معلوم ہوا کہ قیام میں سنت ہاتھ باندھنا ہے۔چھوڑنا نہیں جس طرح بعض حضرات ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں۔2۔پکڑنے سے مراد بایئں ہاتھ پر دایاں ہاتھ رکھنا ہے جیسے کہ حدیث 811 میں آرہا ہے۔3۔صحیح بخاری کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔کہ دایاں ہاتھ بایئں بازو پررکھناچاہیے۔(دیکھئے۔صحیح البخاری الازان۔باب وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلاۃ حدیث 740۔)یعنی حدیث 811 میں ید سے مراد ہتھیلی نہیں بلکہ بازو ہے۔اس طرح دونوں حدیثوں میں تطبیق ہوجاتی ہے۔اور ہاتھ باندھنے کی وہ کیفیت متعین ہوجاتی ہے۔جو صحیح بخاری کی روایت سے معلوم ہوتی ہے۔4۔قیام میں دونوں ہاتھ سینے پر باندھنے چاہییں جیسے کہ متعدد احادیث میں مروی ہے۔حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا :کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ تو آپ نے دایاں ہاتھ اپنے بایئں ہاتھ پر سینہ پر رکھا۔ (صحیح ابن خزیمہ الصلاۃ باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ قبل افتتاح القراۃ حدیث 479)اس کے حاشیے میں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔اس کی سند ضعیف ہے لیکن یہ حدیث صحیح ہے۔کیونکہ دوسری کئی سندوں سے اس سے ملتے جلتے الفاظ سے مروی ہے۔ ا کی مذید تایئد سینے پر ہاتھ باندھنے کی دوسری احادیث سے بھی ہوتی ہے۔یہ احادیث مسند احمد ۔طبرانی۔ابن ابی حاتم۔اور بہیقی۔میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔(الحاکم 537/2 والبیہقی 29۔30/2 والطبرانی 30(325 1۔اس سے معلوم ہوا کہ قیام میں سنت ہاتھ باندھنا ہے۔چھوڑنا نہیں جس طرح بعض حضرات ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں۔2۔پکڑنے سے مراد بایئں ہاتھ پر دایاں ہاتھ رکھنا ہے جیسے کہ حدیث 811 میں آرہا ہے۔3۔صحیح بخاری کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔کہ دایاں ہاتھ بایئں بازو پررکھناچاہیے۔(دیکھئے۔صحیح البخاری الازان۔باب وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلاۃ حدیث 740۔)یعنی حدیث 811 میں ید سے مراد ہتھیلی نہیں بلکہ بازو ہے۔اس طرح دونوں حدیثوں میں تطبیق ہوجاتی ہے۔اور ہاتھ باندھنے کی وہ کیفیت متعین ہوجاتی ہے۔جو صحیح بخاری کی روایت سے معلوم ہوتی ہے۔4۔قیام میں دونوں ہاتھ سینے پر باندھنے چاہییں جیسے کہ متعدد احادیث میں مروی ہے۔حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا :کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ تو آپ نے دایاں ہاتھ اپنے بایئں ہاتھ پر سینہ پر رکھا۔ (صحیح ابن خزیمہ الصلاۃ باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ قبل افتتاح القراۃ حدیث 479)اس کے حاشیے میں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔اس کی سند ضعیف ہے لیکن یہ حدیث صحیح ہے۔کیونکہ دوسری کئی سندوں سے اس سے ملتے جلتے الفاظ سے مروی ہے۔ ا کی مذید تایئد سینے پر ہاتھ باندھنے کی دوسری احادیث سے بھی ہوتی ہے۔یہ احادیث مسند احمد ۔طبرانی۔ابن ابی حاتم۔اور بہیقی۔میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔(الحاکم 537/2 والبیہقی 29۔30/2 والطبرانی 30(325