Book - حدیث 805

كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا كَبَّرَ سَكَتَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ، قَالَ: فَقُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، أَرَأَيْتَ سُكُوتَكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ، فَأَخْبِرْنِي مَا تَقُولُ، قَالَ: أَقُولُ: اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ، كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ، كَالثَّوْبِ الْأَبْيَضِ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ

ترجمہ Book - حدیث 805

کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ باب: نمازشروع کرنے کا بیان سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہےا نہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب تکبیر تحریمہ کہتے تو تکبیر اور قراءت کے درمیان تھوڑی دیر خاموش رہتے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان ، تکبیر اور قراءت کے درمیان آپ خاموش رہتے ہیں۔ ارشاد فرمایئے کہ آپ اس وقت کیا پڑھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِى وَبَيْنَ خَطَايَاىَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ، اللَّهُمَّ نَقِّنِى مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَاىَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ ‘‘ ’’اے اللہ! میرے درمیان اور میرے گناہوں کے درمیان اس طرح دوری ڈال دے جس طرح تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان فاصلہ کر دیا ہے۔ اے اللہ! مجھے میرے گناہوں سے پاک کر دے، جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے پاک کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! مجھے پانی، برف اور اولوں کے ذریعے سے میرے گناہوں سے صاف کر دے۔ ‘‘
تشریح : 1۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو علم کا اس قدر شوق تھا کہ خود رسول اللہ ﷺ سے پوچھ لیتے تھے۔اور یہ انتظا ر نہیں کرتے تھے۔ کہ خود آپﷺ بیان فرمایئں۔البتہ بعض اوقات اس خیال سے توقف کرتے تھے۔ کہ یہ سوال رسول اللہﷺ کو ناگوار محسوس نہ ہو۔ اور بلاضرورت سوال کرنے سے بھی پرہیز کرتے تھے۔2۔گناہوں سے فاصلہ کردینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور توفیق کے ساتھ گناہوں سے محفوظ رکھے۔اور ہم گناہوں کاارتکاب تو درکنار ان کے قریب بھی نہ پھٹکیں۔3۔گناہوں کو میل کچیل سے تشبیہ دی جاتی ہے۔اس لئے انتہائی صفائی کو سفید کپڑے کی صفائی سے تشبیہ دی گئی ہے۔کیونکہ سفید کپڑے کو زیادہ توجہ اور اہتمام سے صاف کیاجاتا ہے۔کہ اگر معمولی سا بھی داغ یا دھبہ رہ گیا تو بہت بُرا محسوس ہوگا۔مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام چھوٹے بڑے گناہ معاف فرمادے۔4۔گناہ جہنم میں لے جانے کا باعث ہیں۔ان سے روح بے چینی محسوس کرتی ہے۔جس طرح جسم ظاہری گری سے بے چینی محسوس کرتا ہے۔اس لئے گناہوں سے صفائی کےلئے زیادہ ٹھنڈی اشیاء کا زکر کیا گیا ہے۔کہ دل کو ٹھنڈ اور تسکین حاصل ہوجائے۔5،۔نبی کریمﷺ معصوم تھے۔لیکن اظہار عبودیت کےلئے اور امت کو تعلیم دینے کےلئے استغفار فرماتے تھے۔ 1۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو علم کا اس قدر شوق تھا کہ خود رسول اللہ ﷺ سے پوچھ لیتے تھے۔اور یہ انتظا ر نہیں کرتے تھے۔ کہ خود آپﷺ بیان فرمایئں۔البتہ بعض اوقات اس خیال سے توقف کرتے تھے۔ کہ یہ سوال رسول اللہﷺ کو ناگوار محسوس نہ ہو۔ اور بلاضرورت سوال کرنے سے بھی پرہیز کرتے تھے۔2۔گناہوں سے فاصلہ کردینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور توفیق کے ساتھ گناہوں سے محفوظ رکھے۔اور ہم گناہوں کاارتکاب تو درکنار ان کے قریب بھی نہ پھٹکیں۔3۔گناہوں کو میل کچیل سے تشبیہ دی جاتی ہے۔اس لئے انتہائی صفائی کو سفید کپڑے کی صفائی سے تشبیہ دی گئی ہے۔کیونکہ سفید کپڑے کو زیادہ توجہ اور اہتمام سے صاف کیاجاتا ہے۔کہ اگر معمولی سا بھی داغ یا دھبہ رہ گیا تو بہت بُرا محسوس ہوگا۔مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام چھوٹے بڑے گناہ معاف فرمادے۔4۔گناہ جہنم میں لے جانے کا باعث ہیں۔ان سے روح بے چینی محسوس کرتی ہے۔جس طرح جسم ظاہری گری سے بے چینی محسوس کرتا ہے۔اس لئے گناہوں سے صفائی کےلئے زیادہ ٹھنڈی اشیاء کا زکر کیا گیا ہے۔کہ دل کو ٹھنڈ اور تسکین حاصل ہوجائے۔5،۔نبی کریمﷺ معصوم تھے۔لیکن اظہار عبودیت کےلئے اور امت کو تعلیم دینے کےلئے استغفار فرماتے تھے۔