كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الطَّنَافِسِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِيَّ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ
کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ
باب: نمازشروع کرنے کا بیان
سیدنا حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: ‘‘رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے قبلے کی طرف منہ کرتے، اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور کہتے (اللہ اکبر) اللہ سب سے بڑا ہے۔ ’’
تشریح :
1۔نما ز میں قبلے کی طرف منہ کرنا فرض ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا
(فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ (البقرۃ۔144)
(اے نبیﷺ)اپنا چہرہ مسجد حرام (احترام والی مسجد) کی طرف پھیر لیجئے۔اور (اے مومنو!)تم جہاں بھی ہو۔(نماز میں) اپنے چہرے اس کی طرف کیا کرو۔ 2۔مسجد حرام سے مراد وہ مسجد ہے۔جس میں خانہ کعبہ واقع ہے۔اس مسجد کے اندر نماز پڑھتے ہوئے۔کعبہ شریف کی طرف منہ کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اصل قبلہ وہی ہے۔رسول اللہﷺ نے کعبہ شریف کے قریب دو رکعت نماز ادا کی۔پھر فرمایا۔ یہ قبلہ ہے (صحیح البخاری الصلاۃ باب قولہ تعالی واتخذو من مقام ابراهيم مصلي حدیث نمبر 398)بیت اللہ سے دور نماز پڑھتے ہوئے صرف اسی سمت کا اندازہ کرلیناکافی ہے۔کیونکہ انسان اپنی طاقت کے مطابق ہی حکم کی تعمیل کا مکلف ہے۔ارشاد ربانی ہے۔
(لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا)(البقرہ۔286)
اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ زمہ داری عائد نہیں فرماتا۔ 3۔نفلی نماز سواری پر ادا کرتے ہوئے اگر چہرہ کسی دوسری طرف بھی ہوجائے۔ تو کوئی حرج نہیں۔نماز درست ہے۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ سواری پر نفل نماز ادا کرلیتے تھے۔ خواہ آپ کا چہرہ مبارک کسی طرف ہوتا۔اور وتر بھی سواری پر پڑھ لیتے تھے۔البتہ فرض نماز سواری پرادا نہیں کرتے تھے۔ (صحیح البخاری الوتر باب الوتر فی السفر حدیث 1000۔وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب جواز الصلواۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر حیث توجھت۔حدیث 700)تاہم آغاذ میں سواری کا رخ قبلہ کی طرف کر لیاجائے۔جیسا کہ ابو دائود کی روایت میں نبی کریمﷺ کیطرح کرنے کی صراحت ہے۔(سنن ابی دائود صلاۃ لسفر حدیث 1225) نماز شروع کرنے کے بعد سواری کا رخ پھر جدھر بھی ہوجائے کوئی حرج نہیں۔4۔نماز شروع کرتے وقت رکوع کرتے وقت اور رکوع سے اُٹھ کر بھی رفع الیدین کرنا سنت ہے۔جیسے کہ اگلے باب میں بیان ہوگا۔دیکھئے(حدیث 858 و859)5۔کانوں تک ہاتھ اُٹھانا بھی درست ہے۔اور کندھوں تک بھی(حوالہ مذکورہ بالا)نماز شروع کرتے وقت اللہ اکبر کہنا تکبیر تحریمہ کہلاتا ہے۔کیونکہ اس سے نمازی پرکچھ پابندیاں لگ جاتی ہیں۔اور تحریم کا مطلب پابندی لگانا ہوتا ہے۔ارشاد نبوی ﷺ ہے۔(مفتاح الصلواة الطهور وتحريمها التكبير وتحليلها التسليم)پاکیزگی (وضو) نماز کی چابی ہے۔اور اس کی پابندیاں عائد کرنے والی چیز تکبیر ہے۔اور پابندی ختم کرنے والی چیز سلام ہے۔ (جامع الترمذی الطہارۃ۔ باب ماء جاء ان مفتاح الصلاۃ الطھور حدیث ۔3)
1۔نما ز میں قبلے کی طرف منہ کرنا فرض ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا
(فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ (البقرۃ۔144)
(اے نبیﷺ)اپنا چہرہ مسجد حرام (احترام والی مسجد) کی طرف پھیر لیجئے۔اور (اے مومنو!)تم جہاں بھی ہو۔(نماز میں) اپنے چہرے اس کی طرف کیا کرو۔ 2۔مسجد حرام سے مراد وہ مسجد ہے۔جس میں خانہ کعبہ واقع ہے۔اس مسجد کے اندر نماز پڑھتے ہوئے۔کعبہ شریف کی طرف منہ کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اصل قبلہ وہی ہے۔رسول اللہﷺ نے کعبہ شریف کے قریب دو رکعت نماز ادا کی۔پھر فرمایا۔ یہ قبلہ ہے (صحیح البخاری الصلاۃ باب قولہ تعالی واتخذو من مقام ابراهيم مصلي حدیث نمبر 398)بیت اللہ سے دور نماز پڑھتے ہوئے صرف اسی سمت کا اندازہ کرلیناکافی ہے۔کیونکہ انسان اپنی طاقت کے مطابق ہی حکم کی تعمیل کا مکلف ہے۔ارشاد ربانی ہے۔
(لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا)(البقرہ۔286)
اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ زمہ داری عائد نہیں فرماتا۔ 3۔نفلی نماز سواری پر ادا کرتے ہوئے اگر چہرہ کسی دوسری طرف بھی ہوجائے۔ تو کوئی حرج نہیں۔نماز درست ہے۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ سواری پر نفل نماز ادا کرلیتے تھے۔ خواہ آپ کا چہرہ مبارک کسی طرف ہوتا۔اور وتر بھی سواری پر پڑھ لیتے تھے۔البتہ فرض نماز سواری پرادا نہیں کرتے تھے۔ (صحیح البخاری الوتر باب الوتر فی السفر حدیث 1000۔وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب جواز الصلواۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر حیث توجھت۔حدیث 700)تاہم آغاذ میں سواری کا رخ قبلہ کی طرف کر لیاجائے۔جیسا کہ ابو دائود کی روایت میں نبی کریمﷺ کیطرح کرنے کی صراحت ہے۔(سنن ابی دائود صلاۃ لسفر حدیث 1225) نماز شروع کرنے کے بعد سواری کا رخ پھر جدھر بھی ہوجائے کوئی حرج نہیں۔4۔نماز شروع کرتے وقت رکوع کرتے وقت اور رکوع سے اُٹھ کر بھی رفع الیدین کرنا سنت ہے۔جیسے کہ اگلے باب میں بیان ہوگا۔دیکھئے(حدیث 858 و859)5۔کانوں تک ہاتھ اُٹھانا بھی درست ہے۔اور کندھوں تک بھی(حوالہ مذکورہ بالا)نماز شروع کرتے وقت اللہ اکبر کہنا تکبیر تحریمہ کہلاتا ہے۔کیونکہ اس سے نمازی پرکچھ پابندیاں لگ جاتی ہیں۔اور تحریم کا مطلب پابندی لگانا ہوتا ہے۔ارشاد نبوی ﷺ ہے۔(مفتاح الصلواة الطهور وتحريمها التكبير وتحليلها التسليم)پاکیزگی (وضو) نماز کی چابی ہے۔اور اس کی پابندیاں عائد کرنے والی چیز تکبیر ہے۔اور پابندی ختم کرنے والی چیز سلام ہے۔ (جامع الترمذی الطہارۃ۔ باب ماء جاء ان مفتاح الصلاۃ الطھور حدیث ۔3)