كِتَابُ الْمَسَاجِدِوَالْجَمَاعَاتِ بَابُ لُزُومِ الْمَسَاجِدِ وَانْتِظَارِ الصَّلَاةِ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَغْرِبَ، فَرَجَعَ مَنْ رَجَعَ، وَعَقَّبَ مَنْ عَقَّبَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْرِعًا، قَدْ حَفَزَهُ النَّفَسُ، وَقَدْ حَسَرَ عَنْ رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ: أَبْشِرُوا، هَذَا رَبُّكُمْ قَدْ فَتَحَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِ السَّمَاءِ، يُبَاهِي بِكُمُ الْمَلَائِكَةَ، يَقُولُ: انْظُرُوا إِلَى عِبَادِي قَدْ قَضَوْا فَرِيضَةً، وَهُمْ يَنْتَظِرُونَ أُخْرَى
کتاب: مسجد اور نماز باجماعت کے مسائل
باب: مساجد میں زیادہ وقت گزارنے اور نماز کا انتظار کرنے کی فضیلت
سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مغرب کی نماز ادا کی۔ اس کے بعد جسے واپس جانا تھا، واپس چلا گیا، اور جیسے بیٹھنا تھا وہ بیٹھا رہا۔ ( اتنے میں ) رسول اللہ ﷺ تیزی سے تشریف لائے، آپ کا سانس پھولا ہوا تھا، اور آپ نے گٹھنوں سے کپڑا اٹھا رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’خوش ہو جاؤ، تمہارے رب نے آسمان کا ایک دروازہ کھولا ہے اور فرشتوں کے سامنے تمہارا ذکر فخر سے کر رہا ہے، فر رہا ہے : میرے بندوں کو دیکھو انہوں نے ایک فرض ادا کیا ہے، اور دوسرے فرض( کی ادائیگی کے وقت) کا انتظار کر رہے ہیں۔ ‘‘
تشریح :
1۔نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھنا بہت عظیم عمل ہے۔
2۔گھٹنا ستر میں شامل نہیں۔
3۔اللہ تعالی مومن بندوں کے نیک اعمال سے خوش ہوتا ہے۔
4۔اللہ تعالی فرشتوں سے ہم کلام ہوتا ہے۔کلام اللہ کی صفت ہے وہ جب چاہتا ہے جس سے چاہتا ہےکلام فرماتا ہے قیامت کے دن ہر انسان سے براہ راست کلام فرمائے گا اور حساب لے گا اہل جنت سے اپنی خوشنودی کے اظہار کے لیے کلام فرمائے گا۔
5۔اللہ تعالی فرشتوں سے ہم کلام اس لیے ہوتا ہے کہ انھوں نے ہی اللہ تعالی کے سامنے ایک روز کہا تھا کہ آدم کی اولاد تیری نافرمانی کرے گی خون بہائے گی اور فساد برپا کرے گی۔
1۔نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھنا بہت عظیم عمل ہے۔
2۔گھٹنا ستر میں شامل نہیں۔
3۔اللہ تعالی مومن بندوں کے نیک اعمال سے خوش ہوتا ہے۔
4۔اللہ تعالی فرشتوں سے ہم کلام ہوتا ہے۔کلام اللہ کی صفت ہے وہ جب چاہتا ہے جس سے چاہتا ہےکلام فرماتا ہے قیامت کے دن ہر انسان سے براہ راست کلام فرمائے گا اور حساب لے گا اہل جنت سے اپنی خوشنودی کے اظہار کے لیے کلام فرمائے گا۔
5۔اللہ تعالی فرشتوں سے ہم کلام اس لیے ہوتا ہے کہ انھوں نے ہی اللہ تعالی کے سامنے ایک روز کہا تھا کہ آدم کی اولاد تیری نافرمانی کرے گی خون بہائے گی اور فساد برپا کرے گی۔