كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ اتِّبَاعِ سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِﷺ حسن حَدَّثَنَا أَبُو عَبْد اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِيحٍ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ زُرْعَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عِنَبَةَ الْخَوْلَانِيَّ وَكَانَ قَدْ صَلَّى الْقِبْلَتَيْنِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَزَالُ اللَّهُ يَغْرِسُ فِي هَذَا الدِّينِ غَرْسًا يَسْتَعْمِلُهُمْ فِي طَاعَتِهِ
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: سنت رسول ﷺ کی پیروی کا بیان
حضرت ابو عنبہ خولانی ؓ سے روایت ہے۔۔۔۔ یہ وہ (صحابی) ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی ہے۔ ۔۔۔ انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرماتے تھے:‘‘اللہ تعالیٰ اس دین میں ہمیشہ( نئے) پودے لگاتا رہے گا اور ان سے اپنی اطاعت میں کام لیتا رہے گا۔’’
تشریح :
(1) حضرت ابوعنبہ خولانی رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام صحابی ہیں، انہوں نے تحویل قبلہ کے حکم سے پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے بھی نماز پڑھی ہے، جیسا کہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنھم خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے سے قبل سولہ سترہ مہینے نماز پڑھتے رہے تھے۔ (2) دین اسلام کی توسیع کسی خاص زمانہ تک محدود نہیں، بلکہ ہر دور میں لوگ دوسرے مذاہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوتے رہیں گے ار امت مسلمہ ان کی صلاحیتوں سے مستفید ہوتی رہے گی۔ (3) اسلام میں کوئی شخص محض اس بنیاد پر کسی اہمیت کا مستحق نہیں ہو جاتا کہ وہ پشت ہا پشت سے مسلمان آباء و اجداد کی اولاد ہے بلکہ ہر فرد اپنے اعمال و کردار اور اپنی کردار اور اپنی خدمات کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں اپنا مقام پیدا کرتا ہے۔ (4) ہر دور میں اور ہر معاشرے کی ضروریات کے مطابق قرآن و حدیث کی رہنمائی میں علمی اور عملی کام کی گنجائش باقی رہے گی۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ فلاں میدان میں اسلام کی خدمت کا کام اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ اب مزید کام کی ضرورت نہیں۔ اس کام کی توفیق جس طرح نسلا کسی مسلمان کو مل سکتی ہے، اسی طرح کسی نو مسلم کو بھی یہ شرف حاصل ہو سکتا ہے۔
(1) حضرت ابوعنبہ خولانی رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام صحابی ہیں، انہوں نے تحویل قبلہ کے حکم سے پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے بھی نماز پڑھی ہے، جیسا کہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنھم خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے سے قبل سولہ سترہ مہینے نماز پڑھتے رہے تھے۔ (2) دین اسلام کی توسیع کسی خاص زمانہ تک محدود نہیں، بلکہ ہر دور میں لوگ دوسرے مذاہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوتے رہیں گے ار امت مسلمہ ان کی صلاحیتوں سے مستفید ہوتی رہے گی۔ (3) اسلام میں کوئی شخص محض اس بنیاد پر کسی اہمیت کا مستحق نہیں ہو جاتا کہ وہ پشت ہا پشت سے مسلمان آباء و اجداد کی اولاد ہے بلکہ ہر فرد اپنے اعمال و کردار اور اپنی کردار اور اپنی خدمات کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں اپنا مقام پیدا کرتا ہے۔ (4) ہر دور میں اور ہر معاشرے کی ضروریات کے مطابق قرآن و حدیث کی رہنمائی میں علمی اور عملی کام کی گنجائش باقی رہے گی۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ فلاں میدان میں اسلام کی خدمت کا کام اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ اب مزید کام کی ضرورت نہیں۔ اس کام کی توفیق جس طرح نسلا کسی مسلمان کو مل سکتی ہے، اسی طرح کسی نو مسلم کو بھی یہ شرف حاصل ہو سکتا ہے۔