Book - حدیث 792

كِتَابُ الْمَسَاجِدِوَالْجَمَاعَاتِ بَابُ التَّغْلِيظِ فِي التَّخَلُّفِ عَنِ الْجَمَاعَةِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ، عَنِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، قَالَ: قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي كَبِيرٌ ضَرِيرٌ، شَاسِعُ الدَّارِ وَلَيْسَ لِي قَائِدٌ يُلَاوِمُنِي، فَهَلْ تَجِدُ لِي مِنْ رُخْصَةٍ قَالَ: «هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ؟» ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «مَا أَجِدُ لَكَ رُخْصَةً»

ترجمہ Book - حدیث 792

کتاب: مسجد اور نماز باجماعت کے مسائل باب: نماز با جماعت سے پیچھے رہ جانا سخت گناہ ہے سیدنا ابن ام مکتوم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ سے عرض کیا: میں بوڑھا اور نابینا ہوں ،میرا گھر دور ہے اور کوئی میری مرضی کے مطابق مجھے( مسجد میں) لانے والا نہیں، تو کیا مجھے (جماعت کے بغیر گھر میں نماز پڑھنے کی) اجازت مل سکتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اذان سنتے ہو؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں، فرمایا: ’’تم کو (نماز باجماعت سے پیچھے رہنے کی) کوئی اجازت نہیں۔ ‘‘
تشریح : 1۔ہمارے فاضل محقق ؒ مذکورہ حدیث کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن صحیح مسلم کی روایت ہے (653) اس سے کفایت کرتی ہے۔تفصیل کے لیے حدیث کی تحقیق وتخریج ملاحظہ فرمائیں۔نیز دیگر محققین نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعه الحديثيه مسند الامام احمد;٢٤/٢٤٣ّ٢٤٤/٢٥٥) اس حدیث سے نماز باجماعت کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کو جماعت کے بغیر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی حالانکہ ان کے متعدد عذر موجود تھے: (ا) وہ معمر تھے۔(ب) وہ نابینا تھے۔( ج) ان کا گھر دور تھا۔(د) ان کے گھر کا کوئی فرد ایسا نہیں تھا جو انھیں مسجد میں لانے کا فرض مستقل طور پر انجام دے سکے۔(ھ) جو شخص انھیں مسجد میں لاتا تھا وہ بھی ان کی مرضی کے مطابق خدمت انجام نہیں دیتا تھا بلکہ اپنی سہولت کو زیادہ مد نظر رکھتا تھا۔(ليس لي قائد يلاومني) کوئی میری مرضی کے مطابق لانے والا نہیں۔ کا یہی مطلب ہے۔ (د)ان کےگھر اور مسجد کے درمیان نشیبی علاقہ تھا جس میں بارش کے موقع پر پانی جمع ہوجاتا تھا۔مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: ( صلاة الجماعه اهمتيها وفضلهاّ تصنیف :ڈاکٹر فضل الہی۔) 3۔رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن مکتوم کو جماعت سے پیچھے رہنے کی اجازت نہیں دی تاکہ انھیں زیادہ سے زیادہ ثواب ملے۔اس کا مقصد ترغیب تھا ورنہ نابینا آدمی اگر مسجد میں آنے میں دشواری محسوس کرے تو اسے گھر میں نماز پڑھنا جائز ہے۔جیسے کہ نبی ﷺ نے حضرت عتبان بن مالک ڑضی اللہ عنہ کو اجاذت دےدی تھی۔دیکھئے: ( سنن ابن ماجه حديث:٧٥٤) 4۔رسول الله ﷺ نے ان سے اذان کے متعلق پوچھا کہ آواز پہنچتی ہے یا نہیں؟اس سے اشارہ ملتا ہے کہ جو شخص آبادی سے دور قیام پذیر ہو جہاں عام طور پر اذان کی آواز نہیں پہنچتی وہ وہیں نماز ادا کرسکتا ہے۔ 1۔ہمارے فاضل محقق ؒ مذکورہ حدیث کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن صحیح مسلم کی روایت ہے (653) اس سے کفایت کرتی ہے۔تفصیل کے لیے حدیث کی تحقیق وتخریج ملاحظہ فرمائیں۔نیز دیگر محققین نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعه الحديثيه مسند الامام احمد;٢٤/٢٤٣ّ٢٤٤/٢٥٥) اس حدیث سے نماز باجماعت کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کو جماعت کے بغیر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی حالانکہ ان کے متعدد عذر موجود تھے: (ا) وہ معمر تھے۔(ب) وہ نابینا تھے۔( ج) ان کا گھر دور تھا۔(د) ان کے گھر کا کوئی فرد ایسا نہیں تھا جو انھیں مسجد میں لانے کا فرض مستقل طور پر انجام دے سکے۔(ھ) جو شخص انھیں مسجد میں لاتا تھا وہ بھی ان کی مرضی کے مطابق خدمت انجام نہیں دیتا تھا بلکہ اپنی سہولت کو زیادہ مد نظر رکھتا تھا۔(ليس لي قائد يلاومني) کوئی میری مرضی کے مطابق لانے والا نہیں۔ کا یہی مطلب ہے۔ (د)ان کےگھر اور مسجد کے درمیان نشیبی علاقہ تھا جس میں بارش کے موقع پر پانی جمع ہوجاتا تھا۔مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: ( صلاة الجماعه اهمتيها وفضلهاّ تصنیف :ڈاکٹر فضل الہی۔) 3۔رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن مکتوم کو جماعت سے پیچھے رہنے کی اجازت نہیں دی تاکہ انھیں زیادہ سے زیادہ ثواب ملے۔اس کا مقصد ترغیب تھا ورنہ نابینا آدمی اگر مسجد میں آنے میں دشواری محسوس کرے تو اسے گھر میں نماز پڑھنا جائز ہے۔جیسے کہ نبی ﷺ نے حضرت عتبان بن مالک ڑضی اللہ عنہ کو اجاذت دےدی تھی۔دیکھئے: ( سنن ابن ماجه حديث:٧٥٤) 4۔رسول الله ﷺ نے ان سے اذان کے متعلق پوچھا کہ آواز پہنچتی ہے یا نہیں؟اس سے اشارہ ملتا ہے کہ جو شخص آبادی سے دور قیام پذیر ہو جہاں عام طور پر اذان کی آواز نہیں پہنچتی وہ وہیں نماز ادا کرسکتا ہے۔