Book - حدیث 791

كِتَابُ الْمَسَاجِدِوَالْجَمَاعَاتِ بَابُ التَّغْلِيظِ فِي التَّخَلُّفِ عَنِ الْجَمَاعَةِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِالصَّلَاةِ، فَتُقَامَ، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا، فَيُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، ثُمَّ أَنْطَلِقَ بِرِجَالٍ مَعَهُمْ حُزَمٌ مِنْ حَطَبٍ إِلَى قَوْمٍ لَا يَشْهَدُونَ الصَّلَاةَ، فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ بِالنَّارِ»

ترجمہ Book - حدیث 791

کتاب: مسجد اور نماز باجماعت کے مسائل باب: نماز با جماعت سے پیچھے رہ جانا سخت گناہ ہے سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے ارادہ کیا تھا کہ نماز کی اقامت کہلواؤں، پھر کسی آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے ،پھر جو لوگ نماز میں حاضر نہیں ہوتے، ان کے پاس کچھ مردوں کو لکڑی کے گٹھوں کے ساتھ لے جاؤں اور ان ( پیچھے رہ جانے والوں ) کے گھروں سمیت آگ سے جلا دوں۔ ‘‘
تشریح : 1۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کے لیے نماز باجماعت میں حاضری ضروری ہے کیونکہ نفلی نیکی ادا نہ کرنے پر سزا نہیں دی جاتی۔ 2۔مجرموں پر اچانک چھاپہ مارنا اور انھیں گھر سے نکلنے پر مجبور کرنا جائز ہے۔ 3۔یہ سختی ان لوگوں کے لیے ہے جو بلا عذر جماعت ترک کرتے ہیں کیونکہ بارش وغیرہ کے موقع پر خود رسول اللہﷺ نے مؤذن سے کہلوایا تھا: (الاصلوا في الرحال ) اپنے خیموں یا گھروں میں نماز پڑھ لو۔ ( صحیح البخاری الاذان باب الرخصہ فی المعطر والعله ان يصلي في الرحله حديث:٦٦٦) 4۔ رسول اللہ ﷺ نے اس ارادے پر اس لیے عمل نہیں فرمایا کہ گھروں میں عورتیں اور بچے بھی ہوتے ہیں جن پر نماز باجماعت میں حاضری ضروری نہیں۔ 5۔اگرچہ نماز با جماعت سے بلا عذر پیچھے رہنا سخت گناہ ہے تاہم جو شخص عذر کی وجہ سے یا بلاعذر پیچھے رہ جائے اس کی نماز اکیلے ہوجائے گی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم نہیں دیا کہ ایسا شخص ضرور کسی اور شخص کو ساتھ ملا کر جماعت سے نماز ادا کرے البتہ اگر وہ کسی کے ساتھ مل کر باجماعت نماز ادا کرے تو اکیلے نماز پڑھنے کی نسبت زیادہ ثواب ہوگا۔ 1۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کے لیے نماز باجماعت میں حاضری ضروری ہے کیونکہ نفلی نیکی ادا نہ کرنے پر سزا نہیں دی جاتی۔ 2۔مجرموں پر اچانک چھاپہ مارنا اور انھیں گھر سے نکلنے پر مجبور کرنا جائز ہے۔ 3۔یہ سختی ان لوگوں کے لیے ہے جو بلا عذر جماعت ترک کرتے ہیں کیونکہ بارش وغیرہ کے موقع پر خود رسول اللہﷺ نے مؤذن سے کہلوایا تھا: (الاصلوا في الرحال ) اپنے خیموں یا گھروں میں نماز پڑھ لو۔ ( صحیح البخاری الاذان باب الرخصہ فی المعطر والعله ان يصلي في الرحله حديث:٦٦٦) 4۔ رسول اللہ ﷺ نے اس ارادے پر اس لیے عمل نہیں فرمایا کہ گھروں میں عورتیں اور بچے بھی ہوتے ہیں جن پر نماز باجماعت میں حاضری ضروری نہیں۔ 5۔اگرچہ نماز با جماعت سے بلا عذر پیچھے رہنا سخت گناہ ہے تاہم جو شخص عذر کی وجہ سے یا بلاعذر پیچھے رہ جائے اس کی نماز اکیلے ہوجائے گی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم نہیں دیا کہ ایسا شخص ضرور کسی اور شخص کو ساتھ ملا کر جماعت سے نماز ادا کرے البتہ اگر وہ کسی کے ساتھ مل کر باجماعت نماز ادا کرے تو اکیلے نماز پڑھنے کی نسبت زیادہ ثواب ہوگا۔