Book - حدیث 775

كِتَابُ الْمَسَاجِدِوَالْجَمَاعَاتِ بَابُ الْمَشْيِ إِلَى الصَّلَاةِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ الْعُثْمَانِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، وَأَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَلَا تَأْتُوهَا وَأَنْتُمْ تَسْعَوْنَ، وَأْتُوهَا تَمْشُونَ وَعَلَيْكُمُ السَّكِينَةُ، فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا، وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا»

ترجمہ Book - حدیث 775

کتاب: مسجد اور نماز باجماعت کے مسائل باب: نماز کے لیے ( مسجد کی طرف ) چلنے کا بیان سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب نماز کی اقامت ہو جائے تو نماز کے لئے دوڑ کر نہ آؤ بلکہ( معمول کے مطابق مناسب رفتار سے) اطمینان سے چلتے ہوئے آؤ، پھر جتنی نماز( جماعت کے ساتھ) مل جائے پڑھ لو، اور جو چھوٹ جائے وہ (بعد میں )پوری کر لو۔‘‘
تشریح : 1۔نماز باجماعت بہت ثواب والا عمل ہے اس کے حصول کی کوشش کرنا اچھی بات ہے لیکن اس مقصد کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ گھر سے بروقت روانہ ہوں۔گھر سے روانہ ہوتے وقت دیر کردینااور پھر نماز میں ملنے کے لیے بھاگنا درست نہیں۔ 2۔اطمینان سے چلنے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی اس قدر آہستہ چلے گویا اسے نماز باجماعت کی کوئی پرواہ نہیں۔مقصد یہ ہے کہ وقار کے ساتھ اللہ کے دربار میں حاضر ہو۔ 3۔بھاگ کر جماعت سے ملنے کے ممنوع ہونے میں یہ حکمت ہو سکتی ہے کہ نماز میں ملنے تک سانس نہ پھول جائےکیونکہ اس صورت میں نماز خشوع خضوع توجہ سے نہیں ادا کی جاسکے گی۔واللہ اعلم 4۔جو شخص نماز باجماعت میں اس وقت ملتا ہے جب امام ایک یا زیادہ رکعت ادا کرچکا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے بلکہ نماز پوری کرنے کے بعد سلام پھیرے۔علمائے کرام کا اس مسئلہ میں اختلاف ہےکہ جو رکعتیں امام کے سلام پھیرنے کے بعد پڑھی جائینگی وہ نمازی کی آخری رکعتیں ہوں گی یا ابتدائی رکعتیں؟ اس حدیث میں مذکور الفاظ سے یہ سمجھا جاسکتا ہےکہ امام کے ساتھ پڑھی ہوئی رکعتیں مقتدی کی ابتدائی رکعتیں ہیں صحیح بخاری میں بھی (صحيح البخاري الاذان باب لا يسعي الي الصلاة ولياتها بالسكينة والوقار حديث:٦٣٦) صحیح مسلم میں بھی زیادہ روایات اسی طرح کی ہے البتہ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں: ( واقض ما سبقك) (صحيح مسلم المساجد باب استحباب اتيان الصلاة بوقار و سكينة۔۔۔۔۔حديث :٦-٢) اس سے یہ دلیل کی گئی کہ بعد میں پڑھی جانے والی رکعتیں اصل میں پہلی رکعتیں ہیں یعنی چھوٹی ہوئی رکعتوں کی قضاء ہے۔علامہ محمد فواد عبد الباقیؒ نے اس حدیث کے حاشیہ میں فرمایا ہے: یہاں قضاء سے مراد صرف فعل( ایک کام کو انجام دینا )ہے وہ قضاء مراد نہیں جو فقہاء کی اصطلاح ہے جیسے کہ اس آیت مبارکہ میں ہے کہ ( فقضهن سبع سموت) (حم السجدة:١٢) (الله تعالی نے انھیں سات آسمان بنادیا اور اس آیت میں:(فاذا قضيتم مناسككم ) (البقرة:٢--) جب تم اپنے اعمال حج پورے کرلو۔۔۔۔ اور اس آیت میں ( فاذاقضيت الصلوة) (الجمعه:١-) جب نماز پوری ہوجائے۔ اور جیسے کہا جاتا ہے قضيت حق فلان میں نے فلاں کا حق ادا کردیا ان تمام مقامات پر قضاء سے مراد کوئی کام کرنا اور اسے انجام دینا ہے۔ حدیث کی مشہور کتاب بلوغ المرام کی شرح السلام میں امام امیر صنعانی ؒ نے فرمایا: اس مسئلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے کہ بعد میں آنے والاامام کے ساتھ جو نماز پڑھتا ہے وہ اس کی پہلی رکعتیں ہوتی ہیں یا آخری؟ صحیح بات یہ ہے کہ وہ پہلی ہی ہوتی ہیں۔ واللہ اعلم۔ 1۔نماز باجماعت بہت ثواب والا عمل ہے اس کے حصول کی کوشش کرنا اچھی بات ہے لیکن اس مقصد کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ گھر سے بروقت روانہ ہوں۔گھر سے روانہ ہوتے وقت دیر کردینااور پھر نماز میں ملنے کے لیے بھاگنا درست نہیں۔ 2۔اطمینان سے چلنے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی اس قدر آہستہ چلے گویا اسے نماز باجماعت کی کوئی پرواہ نہیں۔مقصد یہ ہے کہ وقار کے ساتھ اللہ کے دربار میں حاضر ہو۔ 3۔بھاگ کر جماعت سے ملنے کے ممنوع ہونے میں یہ حکمت ہو سکتی ہے کہ نماز میں ملنے تک سانس نہ پھول جائےکیونکہ اس صورت میں نماز خشوع خضوع توجہ سے نہیں ادا کی جاسکے گی۔واللہ اعلم 4۔جو شخص نماز باجماعت میں اس وقت ملتا ہے جب امام ایک یا زیادہ رکعت ادا کرچکا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے بلکہ نماز پوری کرنے کے بعد سلام پھیرے۔علمائے کرام کا اس مسئلہ میں اختلاف ہےکہ جو رکعتیں امام کے سلام پھیرنے کے بعد پڑھی جائینگی وہ نمازی کی آخری رکعتیں ہوں گی یا ابتدائی رکعتیں؟ اس حدیث میں مذکور الفاظ سے یہ سمجھا جاسکتا ہےکہ امام کے ساتھ پڑھی ہوئی رکعتیں مقتدی کی ابتدائی رکعتیں ہیں صحیح بخاری میں بھی (صحيح البخاري الاذان باب لا يسعي الي الصلاة ولياتها بالسكينة والوقار حديث:٦٣٦) صحیح مسلم میں بھی زیادہ روایات اسی طرح کی ہے البتہ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں: ( واقض ما سبقك) (صحيح مسلم المساجد باب استحباب اتيان الصلاة بوقار و سكينة۔۔۔۔۔حديث :٦-٢) اس سے یہ دلیل کی گئی کہ بعد میں پڑھی جانے والی رکعتیں اصل میں پہلی رکعتیں ہیں یعنی چھوٹی ہوئی رکعتوں کی قضاء ہے۔علامہ محمد فواد عبد الباقیؒ نے اس حدیث کے حاشیہ میں فرمایا ہے: یہاں قضاء سے مراد صرف فعل( ایک کام کو انجام دینا )ہے وہ قضاء مراد نہیں جو فقہاء کی اصطلاح ہے جیسے کہ اس آیت مبارکہ میں ہے کہ ( فقضهن سبع سموت) (حم السجدة:١٢) (الله تعالی نے انھیں سات آسمان بنادیا اور اس آیت میں:(فاذا قضيتم مناسككم ) (البقرة:٢--) جب تم اپنے اعمال حج پورے کرلو۔۔۔۔ اور اس آیت میں ( فاذاقضيت الصلوة) (الجمعه:١-) جب نماز پوری ہوجائے۔ اور جیسے کہا جاتا ہے قضيت حق فلان میں نے فلاں کا حق ادا کردیا ان تمام مقامات پر قضاء سے مراد کوئی کام کرنا اور اسے انجام دینا ہے۔ حدیث کی مشہور کتاب بلوغ المرام کی شرح السلام میں امام امیر صنعانی ؒ نے فرمایا: اس مسئلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے کہ بعد میں آنے والاامام کے ساتھ جو نماز پڑھتا ہے وہ اس کی پہلی رکعتیں ہوتی ہیں یا آخری؟ صحیح بات یہ ہے کہ وہ پہلی ہی ہوتی ہیں۔ واللہ اعلم۔