Book - حدیث 774

كِتَابُ الْمَسَاجِدِوَالْجَمَاعَاتِ بَابُ الْمَشْيِ إِلَى الصَّلَاةِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا تَوَضَّأَ أَحَدُكُمْ، فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ أَتَى الْمَسْجِدَ، لَا يَنْهَزُهُ إِلَّا الصَّلَاةُ، لَا يُرِيدُ إِلَّا الصَّلَاةَ، لَمْ يَخْطُ خَطْوَةً إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً، حَتَّى يَدْخُلَ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ، كَانَ فِي صَلَاةٍ مَا كَانَتِ الصَّلَاةُ تَحْبِسُهُ»

ترجمہ Book - حدیث 774

کتاب: مسجد اور نماز باجماعت کے مسائل باب: نماز کے لیے ( مسجد کی طرف ) چلنے کا بیان سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص وضو کرتا ہے ،اور وضو بھی خوب سنوار کر کرتا ہے، پھر مسجد کی طرف آتا ہے، تو صرف نماز کے لئے( گھر سے) نکلتا ہے، نماز کے سوا اور کوئی مقصد نہیں ہوتا ، تو وہ جو قدم بھی اٹھتا ہے، اس کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند فرماتا ہے، اور ایک گناہ معاف کرتا ہے۔( اس کو اسی طرح ثواب ملتا رہتا ہے) حتی کہ وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے، پھر وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے تو جب تک وہ نماز کی وجہ سے رکا رہتا ہے( ثواب کے لحاظ سے) نماز ہی میں (شمار) ہوتا ہے۔‘‘
تشریح : 1۔اس حدیث میں نماز باجماعت کی فضیلت بیان ہوئی ہے کیونکہ نفلی نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے۔ارشاد نبوی ہے: مرد کی بہترین نماز(وہ ہوتی ہےجو) اس کے گھر میں (ادا کی جاتی) ہے سوائے فرض نماز کے۔ (صحيح البخاري الادب باب ما يجوز من الغضب والشدة لامرالله تعالي حديث:٦١١٣) سنن ابن ماجہ میں بھی اس مسئلہ کی حدیثیں موجود ہیں۔(دیکھیےحدیث:1375 تا 1378) 2۔وجو اچھی طرح کرنا ثواب کا باعث ہے۔ 3۔مسجد میں آنے کا مقصد نماز کے علاوہ کوئی اور جائز کام بھی ہو سکتا ہے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص یہ سوچ کر مسجد میں آئےکہ فلاں کام بھی ہوجائے گا اور نماز بھی پڑھی جائے گی لیکن اسے وہ ثواب نہیں ملے گا جو صرف نماز کے لیے آنے پر ملتا ہےجب کہ اس کے ساتھ کوئی اور کام انجام دینا پیش نظر نہ ہو۔ 4۔نماز کے لیے مسجد تک راستہ طے کرنے کا ثواب اس قدر عظیم ہے کہ ہر قدم پر درجے بلند ہوتے اور گناہ معاف ہوتے ہیں تو خود نماز اللہ کے ہاں کس قدر عظیم عمل ہے اور نماز باجماعت کا کس قدر ثواب ہے اس کا کیا اندازہ ہوسکتا ہے بشرطیکہ وہ نماز پورے آداب اور خشوع وخضوع سے ادا کی جائے۔ 5۔نماز باجماعت کے انتظار میں مسجد میں بیٹھ رہنے کا ثواب بھی بہت زیادہ ہے اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ اذان ہوتے ہی مسجد میں آجائیں۔اذان کے بعد یہ سوچ کر گھر میں بیٹھے رہنا کہ ابھی کافی وقت ہے بڑی محرومی کا باعث ہے۔ 1۔اس حدیث میں نماز باجماعت کی فضیلت بیان ہوئی ہے کیونکہ نفلی نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے۔ارشاد نبوی ہے: مرد کی بہترین نماز(وہ ہوتی ہےجو) اس کے گھر میں (ادا کی جاتی) ہے سوائے فرض نماز کے۔ (صحيح البخاري الادب باب ما يجوز من الغضب والشدة لامرالله تعالي حديث:٦١١٣) سنن ابن ماجہ میں بھی اس مسئلہ کی حدیثیں موجود ہیں۔(دیکھیےحدیث:1375 تا 1378) 2۔وجو اچھی طرح کرنا ثواب کا باعث ہے۔ 3۔مسجد میں آنے کا مقصد نماز کے علاوہ کوئی اور جائز کام بھی ہو سکتا ہے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص یہ سوچ کر مسجد میں آئےکہ فلاں کام بھی ہوجائے گا اور نماز بھی پڑھی جائے گی لیکن اسے وہ ثواب نہیں ملے گا جو صرف نماز کے لیے آنے پر ملتا ہےجب کہ اس کے ساتھ کوئی اور کام انجام دینا پیش نظر نہ ہو۔ 4۔نماز کے لیے مسجد تک راستہ طے کرنے کا ثواب اس قدر عظیم ہے کہ ہر قدم پر درجے بلند ہوتے اور گناہ معاف ہوتے ہیں تو خود نماز اللہ کے ہاں کس قدر عظیم عمل ہے اور نماز باجماعت کا کس قدر ثواب ہے اس کا کیا اندازہ ہوسکتا ہے بشرطیکہ وہ نماز پورے آداب اور خشوع وخضوع سے ادا کی جائے۔ 5۔نماز باجماعت کے انتظار میں مسجد میں بیٹھ رہنے کا ثواب بھی بہت زیادہ ہے اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ اذان ہوتے ہی مسجد میں آجائیں۔اذان کے بعد یہ سوچ کر گھر میں بیٹھے رہنا کہ ابھی کافی وقت ہے بڑی محرومی کا باعث ہے۔