Book - حدیث 763

كِتَابُ الْمَسَاجِدِوَالْجَمَاعَاتِ بَابُ كَرَاهِيَةِ النُّخَامَةِ فِي الْمَسْجِدِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ قَالَ: أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ، وَهُوَ يُصَلِّي بَيْنَ يَدَيِ النَّاسِ، فَحَتَّهَا، ثُمَّ قَالَ حِينَ انْصَرَفَ مِنَ الصَّلَاةِ: «إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا كَانَ فِي الصَّلَاةِ، كَانَ اللَّهُ قِبَلَ وَجْهِهِ، فَلَا يَتَنَخَّمَنَّ أَحَدُكُمْ قِبَلَ وَجْهِهِ فِي الصَّلَاةِ»

ترجمہ Book - حدیث 763

کتاب: مسجد اور نماز باجماعت کے مسائل باب: مسجد میں تھوکنے کی کراہت کا بیان سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے کہ مسجد میں قبلے کی طرف( دیوار پر) بلغم نظر آیا۔ آپ ﷺ نے اسے کھرچ دیا۔ نماز سے فارغ ہو کر فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہوتا ہے تو اللہ اس کے چہرے کی طرف ہوتا ہے، لہٰذا کسی کو نماز کے دوران میں سامنے کی طرف نہیں تھوکنا چاہیے۔‘‘
تشریح : "1۔نماز میں بندہ اللہ تعالی کے حضور اپنی بندگی کا اظہار کرتا ہے لہذا اس وقت سامنے تھوکنا اس ادب واحترام کے منافی ہے جس کا اختیار کرنا ایسے موقعوں پر ضروری ہے۔ 2۔اللہ تعالی کے نمازی کے سامنے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ 3۔اس سے بعض لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اللہ تعالی کی ذات ہر جگہ موجود ہے۔اس مسئلہ میں صحیح موقف یہی ہے کہ اللہ تعالی اپنی ذات کے لحاظ سے آسمانوں سے اوپر عرش عظیم پر ہے لیکن اس کا علم قدرت اور رحمت ہر شے کو محیط ہے۔محدثین کرام کا یہی مسلک ہےجس کے دلائل قرآن وحدیث میں اپنے اپنے مقام پر موجود میں جیسے اللہ تعالی کا فرمان ہے: (الرحمن علي العرش استوي) ( طه:٥) وہ رحمن ہے جس نے عرش پر قرار پکڑا ہے۔ جبکہ حدیث میں اس کی دلیل مشہور ومعروف حدیث جاریہ ہے۔حضرت معاویہ سلمی کہتے ہیں کہ میری ایک لونڈی تھی جو احد پہاڑ اور جوانیہ کے درمیان میری بکریاں چرایا کرتی تھی۔ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور بکریوں میں سے ایک کو اٹھا کر لے گیا۔(مجھے اس کی غفلت پر غصہ آیا) تو میں نے اس کو زور سے تھپڑ مارا۔(پھر مجھے ندامت محسوس ہوئی) تو میں نے خدمت نبوی میں حاضر ہو کر یہ واقعہ بیان کردیا۔نبی کریمﷺ نے بھی اسے سخت ناپسند کیا۔میں نے خواہش ظاہر کی کہ کیا میں اسے آزاد نہ کردوں؟ آپ ﷺ نے حکم دیا کہ لونڈی کو بلالاؤں۔جب وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئی تو آپ ﷺ نے اس سے پوچھا: اللہ تعالی کہاں ہے؟ اس نے جواب دی :اللہ تعالی آسمان میں ہے۔آپ نے سوال کیا کہ میں کون ہوں؟ لونڈی نے جواب دیا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔یہ سن کر آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں لونڈی کو آزاد کردوں کیونکہ یہ مومنہ ہے۔(صحيح مسلم المساجد باب تحريم الكلام في الصلاة۔۔۔۔۔حدیث:٥٣٧) نيز الله تعالي ابني علم قدرت رحمت اور حفاظت کے ساتھاپنے نیک بندوں کا ساتھ دیتا ہے۔فرمان الہی ہے: ( وقال الله اني معكم) (المائدة:١٢) اور اللہ نے فرمایا میں تمھارے ساتھ ہوں۔ حافظ ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں :یعنی اپنی حفاظت اور مدد کے ساتھ۔ ارشاد باری تعالی ہے( والله محيط بالكفرين) (البقره:١٩) اور الله تعالی کافروں کو گھیرنے والا ہے(اپنی قدرت ومشیت سے۔ ) حافظ ابن کثیر ؒ اللہ تعالی کے ارشاد مبارک :(قال لاتخافا انني معكما اسمع واري) ( طه:٤٦); اللہ تعالی نے فرمایا: تم بالکل خوف نہ کھاؤ میں تمھارے ساتھ ہوں اور سنتا دیکھتا رہوں گا ۔کی تفسیر میں لکھتے ہیں:یعنی اپنی نصرت وتائید وحفاظت ے ساتھ تمھارے ساتھ رہوں گا۔اس معنی کی وضاحت کے لیے ویگر فرامین الہی اور احادیث نبویہ بکثرت موجود ہیں۔والحمد للہ علی ذلک۔" "1۔نماز میں بندہ اللہ تعالی کے حضور اپنی بندگی کا اظہار کرتا ہے لہذا اس وقت سامنے تھوکنا اس ادب واحترام کے منافی ہے جس کا اختیار کرنا ایسے موقعوں پر ضروری ہے۔ 2۔اللہ تعالی کے نمازی کے سامنے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ 3۔اس سے بعض لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اللہ تعالی کی ذات ہر جگہ موجود ہے۔اس مسئلہ میں صحیح موقف یہی ہے کہ اللہ تعالی اپنی ذات کے لحاظ سے آسمانوں سے اوپر عرش عظیم پر ہے لیکن اس کا علم قدرت اور رحمت ہر شے کو محیط ہے۔محدثین کرام کا یہی مسلک ہےجس کے دلائل قرآن وحدیث میں اپنے اپنے مقام پر موجود میں جیسے اللہ تعالی کا فرمان ہے: (الرحمن علي العرش استوي) ( طه:٥) وہ رحمن ہے جس نے عرش پر قرار پکڑا ہے۔ جبکہ حدیث میں اس کی دلیل مشہور ومعروف حدیث جاریہ ہے۔حضرت معاویہ سلمی کہتے ہیں کہ میری ایک لونڈی تھی جو احد پہاڑ اور جوانیہ کے درمیان میری بکریاں چرایا کرتی تھی۔ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور بکریوں میں سے ایک کو اٹھا کر لے گیا۔(مجھے اس کی غفلت پر غصہ آیا) تو میں نے اس کو زور سے تھپڑ مارا۔(پھر مجھے ندامت محسوس ہوئی) تو میں نے خدمت نبوی میں حاضر ہو کر یہ واقعہ بیان کردیا۔نبی کریمﷺ نے بھی اسے سخت ناپسند کیا۔میں نے خواہش ظاہر کی کہ کیا میں اسے آزاد نہ کردوں؟ آپ ﷺ نے حکم دیا کہ لونڈی کو بلالاؤں۔جب وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئی تو آپ ﷺ نے اس سے پوچھا: اللہ تعالی کہاں ہے؟ اس نے جواب دی :اللہ تعالی آسمان میں ہے۔آپ نے سوال کیا کہ میں کون ہوں؟ لونڈی نے جواب دیا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔یہ سن کر آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں لونڈی کو آزاد کردوں کیونکہ یہ مومنہ ہے۔(صحيح مسلم المساجد باب تحريم الكلام في الصلاة۔۔۔۔۔حدیث:٥٣٧) نيز الله تعالي ابني علم قدرت رحمت اور حفاظت کے ساتھاپنے نیک بندوں کا ساتھ دیتا ہے۔فرمان الہی ہے: ( وقال الله اني معكم) (المائدة:١٢) اور اللہ نے فرمایا میں تمھارے ساتھ ہوں۔ حافظ ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں :یعنی اپنی حفاظت اور مدد کے ساتھ۔ ارشاد باری تعالی ہے( والله محيط بالكفرين) (البقره:١٩) اور الله تعالی کافروں کو گھیرنے والا ہے(اپنی قدرت ومشیت سے۔ ) حافظ ابن کثیر ؒ اللہ تعالی کے ارشاد مبارک :(قال لاتخافا انني معكما اسمع واري) ( طه:٤٦); اللہ تعالی نے فرمایا: تم بالکل خوف نہ کھاؤ میں تمھارے ساتھ ہوں اور سنتا دیکھتا رہوں گا ۔کی تفسیر میں لکھتے ہیں:یعنی اپنی نصرت وتائید وحفاظت ے ساتھ تمھارے ساتھ رہوں گا۔اس معنی کی وضاحت کے لیے ویگر فرامین الہی اور احادیث نبویہ بکثرت موجود ہیں۔والحمد للہ علی ذلک۔"