Book - حدیث 76

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِي الْقَدَرِ صحیح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، ح وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّقِّيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ: قَالَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ أَنَّهُ: يُجْمَعُ خَلْقُ أَحَدِكُمْ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ إِلَيْهِ الْمَلَكَ، فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، فَيَقُولُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَأَجَلَهُ، وَرِزْقَهُ، وَشَقِيٌّ، أَمْ سَعِيدٌ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا

ترجمہ Book - حدیث 76

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: تقدیر سے متعلق احکام ومسائل حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہمیں اللہ کے رسول ﷺ نے حدیث سنائی وہ( خود بھی) سچے تھے اور انہیں( اللہ کی طرف سے بھی) سچی خبر ملی۔ (آپ نے فرمایا:) ‘‘انسان کا مادہٴ تخلیق اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن (قطرے کی صورت میں) جمع رہتا ہے، پھر اتنی ہی مدت کے لئے (جمے ہوئے خون کی) پھٹکی یا لوتھڑا بن جاتا ہے، پھر اتنا ہی عرصہ گوشت کا ٹکڑا بنا رہتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے جسےچار باتوں (کے لکھنے ) کا حکم دیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اس کے اعمال، اس کی عمر اور اس کا رزق لکھ دے اور یہ بھی کہ وہ بدقست ہوگا یا خوش قسمت ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ایک آدمی جنتیوں والے عمل کرتا رہتا ہے حتٰی کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، پھر اس پر( تقدیر کی) تحریر غالب آجاتی ہے اور وہ جہنمیوں والا عمل کر کے جہنم میں داخل ہو جاتا ہے۔(اسی طرح) ایک آدمی جہنمیوں والے اعمال کرتا رہتا ہے حتٰی کہ وہ جہنم سے ایک ہاتھ دور رہ جاتا ہے، پھر اس پر (تقدیر کا) لکھا غالب آجاتا ہے ،چنانچہ وہ جنتیوں والا عمل کر کے جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔’’
تشریح : (1) تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ ابد تک جو کچھ بھی ہونے والا ہے، اس کا علم پہلے سے اللہ کو ہے اور اس نے اسے لکھ رکھا ہے۔ اب جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کے ازلی علم کے مطابق ہی ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ نے گناہ گار کو گناہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ انسان اللہ کی دی ہوئی طاقت ہی سے نیکی یا گناہ کرتا ہے۔ اگراللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ اختیار چھین لیتا لیکن وہ ایسا نہیں کرتا، البتہ اسے پہلے سے معلوم ہے کہ فلاں بندہ اس اختیار کو صحیح طریقے سے استعمال کر کے اس کی خوشنودی حاصل کر لے گا اور فلاں بندہ اس اختیار کے غلط استعمال کی وجہ سے اللہ کو ناراض کر کے سزا کا مستحق ہو جائے گا۔ (2) انسان کے نیک و بد اعمال، اس کی عمر، اس کا رزق اور اس کا جنتی یا جہنمی ہونا ایک خاص وقت پر اللہ کے بتانے سے فرشتوں کے علم مین آتا ہے اور وہ لکھ لیتے ہیں، اگرچہ یہ فیصلے ازل میں ہو چکے ہیں اور لوح محفوظ میں درج ہو چکے ہیں۔ (3) ماں کے پیٹ میں انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل ہیں۔ ایک مرحلے سے دوسرے مرحلہ میں وہ دیکھنے میں خون سے زیادہ مشابہ محسوس ہوتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں اعضاء بننے لگتے ہیں لیکن مجموعی طور پر وہ نرم گوشت کے ٹکڑے سے مشابہ نظر آتا ہے۔ (4) ہر انسان کی عمر مقرر ہے۔ اس سے پہلے فوت نہیں ہو سکتا، لہذا بندے کو جان کے خوف سے ایمان ترک نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایمان کی حفاظت کے لیے جان قربان کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ (5) ہر انسان کا رزق مقرر ہو چکا ہے جو اسے بہرحال ملنا ہے، بندے کی آزمائش اسی چیز میں ہے کہ وہ اس کے حصول کے لیے کون سے ذرائع اختیار کرنے سے بھی نہیں ملے گی، اس لیے اللہ پر توکل کرتے ہوئے رزق حلال حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (6) کسی شخص کے بارے میں بالیقین جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بات صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ کون جنت میں جانے والا ہے اور کون جہنم کا ایندھن بننے والا ہے، البتہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھنا ضروری ہے اور کسی نیک آدمی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے یہی کہنا چاہیے کہ ہمارے خیال میں وہ نیک آدمی تھا اور ہم اللہ کی رحمت سے امید رکھتے ہیں کہ وہ جنت میں جائے گا، البتہ جن افراد کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یا اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا ہے، ان کے جنتی یا جہنمی ہونے کے بارے میں یقین رکھنا چاہیے، مثلا: ابولہب اور اس کی بیوی کا جہنمی ہونا، جیسے سورہ لہب میں مذکور ہے یا عشرہ مبشرہ رضی اللہ عنھم کا جنتہ ہونا وغیرہ۔ (7) کسی غیر مسلم یا گناہ گار کو تبلیغ کی جائے اور وہ قبول نہ کرے تو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اسے ہرگز ہدایت نہیں ملے گی کیونکہ اس کا علم صرف اللہ کو ہے ممکن ہے آخری وقت میں ہدایت نصیب ہو جائے، جیسے ایک یہودی لڑکے کو مرض الموت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام لانے کو کہا، تو وہ اسلام لے آیا اور فوت ہو گیا۔ (صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب اذا اسلام الصبي فمات هل يُصلي عليه...’ حديث:1356) (8) مومن کو نیکیوں پر فخڑ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ کا خوف رکھتے ہوئے استقامت کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا فرمائی تھی: (فاطِرَ‌ السَّمـوتِ وَالأَر‌ضِ أَنتَ وَلِيّۦ فِى الدُّنيا وَالءاخِرَ‌ةِ تَوَفَّنى مُسلِمًا وَأَلحِقنى بِالصّـلِحينَ) (یوسف:101) اے زمین اور آسمان کے بنانے والے! تو ہی دنیا اور آخرت مین میرا دوست اور کارساز ہے، مجھے اسلام کی حالت میں فوت کرنا اور نیکوں مین شامل کر دینا۔ (1) تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ ابد تک جو کچھ بھی ہونے والا ہے، اس کا علم پہلے سے اللہ کو ہے اور اس نے اسے لکھ رکھا ہے۔ اب جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کے ازلی علم کے مطابق ہی ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ نے گناہ گار کو گناہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ انسان اللہ کی دی ہوئی طاقت ہی سے نیکی یا گناہ کرتا ہے۔ اگراللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ اختیار چھین لیتا لیکن وہ ایسا نہیں کرتا، البتہ اسے پہلے سے معلوم ہے کہ فلاں بندہ اس اختیار کو صحیح طریقے سے استعمال کر کے اس کی خوشنودی حاصل کر لے گا اور فلاں بندہ اس اختیار کے غلط استعمال کی وجہ سے اللہ کو ناراض کر کے سزا کا مستحق ہو جائے گا۔ (2) انسان کے نیک و بد اعمال، اس کی عمر، اس کا رزق اور اس کا جنتی یا جہنمی ہونا ایک خاص وقت پر اللہ کے بتانے سے فرشتوں کے علم مین آتا ہے اور وہ لکھ لیتے ہیں، اگرچہ یہ فیصلے ازل میں ہو چکے ہیں اور لوح محفوظ میں درج ہو چکے ہیں۔ (3) ماں کے پیٹ میں انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل ہیں۔ ایک مرحلے سے دوسرے مرحلہ میں وہ دیکھنے میں خون سے زیادہ مشابہ محسوس ہوتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں اعضاء بننے لگتے ہیں لیکن مجموعی طور پر وہ نرم گوشت کے ٹکڑے سے مشابہ نظر آتا ہے۔ (4) ہر انسان کی عمر مقرر ہے۔ اس سے پہلے فوت نہیں ہو سکتا، لہذا بندے کو جان کے خوف سے ایمان ترک نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایمان کی حفاظت کے لیے جان قربان کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ (5) ہر انسان کا رزق مقرر ہو چکا ہے جو اسے بہرحال ملنا ہے، بندے کی آزمائش اسی چیز میں ہے کہ وہ اس کے حصول کے لیے کون سے ذرائع اختیار کرنے سے بھی نہیں ملے گی، اس لیے اللہ پر توکل کرتے ہوئے رزق حلال حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (6) کسی شخص کے بارے میں بالیقین جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بات صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ کون جنت میں جانے والا ہے اور کون جہنم کا ایندھن بننے والا ہے، البتہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھنا ضروری ہے اور کسی نیک آدمی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے یہی کہنا چاہیے کہ ہمارے خیال میں وہ نیک آدمی تھا اور ہم اللہ کی رحمت سے امید رکھتے ہیں کہ وہ جنت میں جائے گا، البتہ جن افراد کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یا اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا ہے، ان کے جنتی یا جہنمی ہونے کے بارے میں یقین رکھنا چاہیے، مثلا: ابولہب اور اس کی بیوی کا جہنمی ہونا، جیسے سورہ لہب میں مذکور ہے یا عشرہ مبشرہ رضی اللہ عنھم کا جنتہ ہونا وغیرہ۔ (7) کسی غیر مسلم یا گناہ گار کو تبلیغ کی جائے اور وہ قبول نہ کرے تو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اسے ہرگز ہدایت نہیں ملے گی کیونکہ اس کا علم صرف اللہ کو ہے ممکن ہے آخری وقت میں ہدایت نصیب ہو جائے، جیسے ایک یہودی لڑکے کو مرض الموت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام لانے کو کہا، تو وہ اسلام لے آیا اور فوت ہو گیا۔ (صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب اذا اسلام الصبي فمات هل يُصلي عليه...’ حديث:1356) (8) مومن کو نیکیوں پر فخڑ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ کا خوف رکھتے ہوئے استقامت کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا فرمائی تھی: (فاطِرَ‌ السَّمـوتِ وَالأَر‌ضِ أَنتَ وَلِيّۦ فِى الدُّنيا وَالءاخِرَ‌ةِ تَوَفَّنى مُسلِمًا وَأَلحِقنى بِالصّـلِحينَ) (یوسف:101) اے زمین اور آسمان کے بنانے والے! تو ہی دنیا اور آخرت مین میرا دوست اور کارساز ہے، مجھے اسلام کی حالت میں فوت کرنا اور نیکوں مین شامل کر دینا۔