Book - حدیث 721

كِتَابُ الْأَذَانِ وَالسُّنَّةُ فِيهِ بَابُ مَا يُقَالَ إِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِىُّ أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ الْحُكَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ الْمُؤَذِّنَ وَأَنَا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا غُفِرَ لَهُ ذَنْبُهُ

ترجمہ Book - حدیث 721

کتاب: آذان کے مسائل اور اس کا طریقہ باب: اذان سن کر کیا کہنا چا ہیے ؟ سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے مؤذن کی اذان سن کر یہ الفاظ کہے: (وانا اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ رضیت باللہ ربا، وبالاسلام دینا، وبمحمدا نبیاً) ’’اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اکیلے اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد(ﷺ) کے نبی ہونے پر راضی ہوں۔‘‘ اس کے گناہ معاف ہو جائیں گے۔‘‘
تشریح : 1۔توحیدورسالت کا اقرار اسلام کی بنیاد ہےاور اسی پر نجات کا دارومدار ہے۔ 2۔اللہ کی ربویت پر راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ربویت پر ایسا ایمان ہو جیسے ایمان کا حق ہے۔یہ احساس کی تمام نعمتیں وہی ہمیں دےرہا ہے اور مسلسل ہماری ضرورت کی ہر چیز بہم پہنچارہا ہے اس سے شکر اور محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اس لیے مومن کی اللہ سے محبت بے مثال ہوتی ہے۔یہ محبت اس کا مزید قرب حاصل کرنے کے لیے ہر نیکی پر آمادہ کرتی اور ہر گناہ سے اجتناب پر مجبور کرتی ہے۔اس کے بعد ساری امیدیں اللہ ہی سے وابستہ ہوجاتی ہیں جس کو یہ مقام حاصل ہوجائے وہ یقیناًاللہ کی رحمت سے جنت میں جائے گا۔ 3۔اسلام کو اپنا دین تسلیم کرلینا یہ ہے یہ یقین پیدا ہوجائےکہ اس دین کی ہر بات حق اور ہر ہدایت بعینہ درست ہے جس میں کسی قسم کی کوئی خامی اور خرابی نہیں۔یہ غیر مسلموں کا کوئی عقیدہ کوئی رسم ورواج اور کوئی ادب اسلام کی عظیم تہذیب سے برتر نہیں۔جب یہ احساس پیدا ہوجاتا ہےپھر یہ ممکن نہیں رہتا کہ ہم کسی معاملہ کی رہنمائی ملتی ہےاور اس پر دل مطمئن ہوتا ہے۔حقیقت میں یہی وہ ایمان ہے جو آجکل کے اکثر مسلمانوں میں مفقود ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا ہر معاشرہ عملی طور پر غیر مسلم معاشرہ بنا ہوا ہے اور اسلام کی برکات سے محروم ہے۔ 4۔حضرت محمدﷺ کی نبوت ورسالت پر راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ ہی اسلام کی اصل تعبیر ہے جس پر عمل کرنا ہمارا مقصود ہے۔گزشتہ انبیاء کرام کی شریعتیں منسوخ ہوچکی ہیں۔ہمیں ان پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں۔اس طرح کسی امتی کا یہ مقام نہیں کہ اس کی ہر بات آنکھ بند کرکے مان لی جائے۔مسلمانوں کی اجتماعیت کا مرکز ومحور صرف رسول اکرم ﷺ کی ذات اقدس ہے۔جیسے کہ علامہ اقبالؒ نے فرمایا ؔ بہ مصطفی برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی ست خود کو مصطفیﷺ تک پہنچاؤ کیونکہ انہی کی ذات سراپا دین ہے۔اگر تم نبی ﷺ تک پہنچے تو باقی سب کچھ ابو لہب ہی کا طریقہ ہے، 1۔توحیدورسالت کا اقرار اسلام کی بنیاد ہےاور اسی پر نجات کا دارومدار ہے۔ 2۔اللہ کی ربویت پر راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ربویت پر ایسا ایمان ہو جیسے ایمان کا حق ہے۔یہ احساس کی تمام نعمتیں وہی ہمیں دےرہا ہے اور مسلسل ہماری ضرورت کی ہر چیز بہم پہنچارہا ہے اس سے شکر اور محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اس لیے مومن کی اللہ سے محبت بے مثال ہوتی ہے۔یہ محبت اس کا مزید قرب حاصل کرنے کے لیے ہر نیکی پر آمادہ کرتی اور ہر گناہ سے اجتناب پر مجبور کرتی ہے۔اس کے بعد ساری امیدیں اللہ ہی سے وابستہ ہوجاتی ہیں جس کو یہ مقام حاصل ہوجائے وہ یقیناًاللہ کی رحمت سے جنت میں جائے گا۔ 3۔اسلام کو اپنا دین تسلیم کرلینا یہ ہے یہ یقین پیدا ہوجائےکہ اس دین کی ہر بات حق اور ہر ہدایت بعینہ درست ہے جس میں کسی قسم کی کوئی خامی اور خرابی نہیں۔یہ غیر مسلموں کا کوئی عقیدہ کوئی رسم ورواج اور کوئی ادب اسلام کی عظیم تہذیب سے برتر نہیں۔جب یہ احساس پیدا ہوجاتا ہےپھر یہ ممکن نہیں رہتا کہ ہم کسی معاملہ کی رہنمائی ملتی ہےاور اس پر دل مطمئن ہوتا ہے۔حقیقت میں یہی وہ ایمان ہے جو آجکل کے اکثر مسلمانوں میں مفقود ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا ہر معاشرہ عملی طور پر غیر مسلم معاشرہ بنا ہوا ہے اور اسلام کی برکات سے محروم ہے۔ 4۔حضرت محمدﷺ کی نبوت ورسالت پر راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ ہی اسلام کی اصل تعبیر ہے جس پر عمل کرنا ہمارا مقصود ہے۔گزشتہ انبیاء کرام کی شریعتیں منسوخ ہوچکی ہیں۔ہمیں ان پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں۔اس طرح کسی امتی کا یہ مقام نہیں کہ اس کی ہر بات آنکھ بند کرکے مان لی جائے۔مسلمانوں کی اجتماعیت کا مرکز ومحور صرف رسول اکرم ﷺ کی ذات اقدس ہے۔جیسے کہ علامہ اقبالؒ نے فرمایا ؔ بہ مصطفی برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی ست خود کو مصطفیﷺ تک پہنچاؤ کیونکہ انہی کی ذات سراپا دین ہے۔اگر تم نبی ﷺ تک پہنچے تو باقی سب کچھ ابو لہب ہی کا طریقہ ہے،