كِتَابُ الْأَذَانِ وَالسُّنَّةُ فِيهِ بَابُ السُّنَّةِ فِي الْأَذَانِ ضعیف حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنَا الِإفْرِيقِيُّ عَنْ زِيَادِ بْنِ نُعَيْمٍ عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِيِّ قَالَ كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَمَرَنِي فَأَذَّنْتُ فَأَرَادَ بِلَالٌ أَنْ يُقِيمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَخَا صُدَاءٍ قَدْ أَذَّنَ وَمَنْ أَذَّنَ فَهُوَ يُقِيمُ
کتاب: آذان کے مسائل اور اس کا طریقہ
باب: اذان کا طریقہ
سیدنا زیادہ بن حارث صدائی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھا۔ آپ نے مجھے حکم دیا تو میں نے اذان دی۔( جماعت کے وقت) سیدنا بلال ؓ نے اقامت کہنا چاہی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قبیلہ بن صداء کے آدمی نے اذان دی ہے اور جو کوئی اذان دے وہی اقامت کہے۔‘‘
تشریح :
فائدہ:یہ روایت سنداً ضعیف ہے اس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ مؤذن ہی تکبیر کہے تاہم ہماری مساجد کی بالعموم جو صورت حال ہے اس کے پیش نظر مصلحت کا تقاضہ یہی ہے کہ مؤذن ہی کو تکبیر کہنے کا پابند کیا جائےتاکہ انتشارکا دروازہ نہ کھلے۔چونکہ دیکھنے میں یہ آیا ہےکہ نمازی اکثر شوق تکبیر میں ایک دوسرے سے الجھتے ہیں جو بعض دفعہ نزاع وجدال کی صورت اختیار کرلیتا ہے بناءبریں انتظامی مصلحت کے تحت مؤذن ہی کو تکبیر کا پابند بنادینانہایت مناسب بات ہے گو شرعاً یہ ضروری نہیں ہے۔
فائدہ:یہ روایت سنداً ضعیف ہے اس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ مؤذن ہی تکبیر کہے تاہم ہماری مساجد کی بالعموم جو صورت حال ہے اس کے پیش نظر مصلحت کا تقاضہ یہی ہے کہ مؤذن ہی کو تکبیر کہنے کا پابند کیا جائےتاکہ انتشارکا دروازہ نہ کھلے۔چونکہ دیکھنے میں یہ آیا ہےکہ نمازی اکثر شوق تکبیر میں ایک دوسرے سے الجھتے ہیں جو بعض دفعہ نزاع وجدال کی صورت اختیار کرلیتا ہے بناءبریں انتظامی مصلحت کے تحت مؤذن ہی کو تکبیر کا پابند بنادینانہایت مناسب بات ہے گو شرعاً یہ ضروری نہیں ہے۔