Book - حدیث 684

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الْمُحَافَظَةِ عَلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ حسن صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ مَلَأَ اللَّهُ بُيُوتَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا كَمَا شَغَلُونَا عَنْ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى

ترجمہ Book - حدیث 684

کتاب: نماز سے متعلق احکام ومسائل باب: نماز عصرکی پا بندی ضروری ہے سیدنا علی بن ابو طالب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہٴ خندق کے موقع پر ارشاد فرمایا: ’’جس طرح ان لوگوں نے ہمیں عصر کی نماز سے روک دیا، اللہ( اس کی سزا کے طور پر) ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔‘‘
تشریح : 1۔جو شخص بددعا کا مستحق ہو اسے بددعا دینا جائز ہے۔ 2۔دینی نقصان دنیاوی نقصان سے زیادہ اہم ہے۔ 3۔نماز عصر کی اہمیت دوسری نمازوں سے زیادہ ہے۔ 4۔اس واقعہ کا یہ پہلو انتہائی قابل توجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جنھیں اللہ تعالی نے (رحمة للعالمين) فرمایاہے جب ان کی زندگی کا شدید ترین دن تھا یعنی جب نبی کریمﷺ طائف تشریف لے گئےاور مشرکین نے نہ صرف یہ کی آپ ﷺ کی بات سنی اور انتہائی گستاخی سے پیش آئے بلکہ بچوں کو نبی کریمﷺ کے پیچھے لگادیا جنہوں نے اس حد تک سنگ ہاری کی کہ نبی اکرمﷺ کا جسد اطہر لہولہان ہوگیا اس وقت بھی آپ نے ان کو بددعا دینے سے اجتناب کیا لیکن جنگ خندق میں مصروفیت کی وجہ سے نماز عصر رہ گئی تو طائف میں خاموش رہنے والی زبان سے بھی بددعا نکل گئی۔اور بددعا بھی اتنی شدید کہ اللہ کرے کہ ان کے گھروں میں آسمان سے آگ برسے اور جب مرجائیں تو قبروں میں بھی آگ کا ایندھن بنے رہیں۔ان لوگوں کو غور کرنا چاہیے جو محض کاہلی کی وجہ سے یا کھیل کود میں مصروفیت کی وجہ سے یا کاروبار یا کسی دوسری مشغولیت کی وجہ سے نماز چھوڑدیتے ہیں ان کا یہ عمل آپﷺ کی نظر میں کس قدر قابل نفرت اور کتنا عظیم جرم ہے۔اللہ ہمیں اپنے غضب سے محفوظ رکھے۔آمین، 1۔جو شخص بددعا کا مستحق ہو اسے بددعا دینا جائز ہے۔ 2۔دینی نقصان دنیاوی نقصان سے زیادہ اہم ہے۔ 3۔نماز عصر کی اہمیت دوسری نمازوں سے زیادہ ہے۔ 4۔اس واقعہ کا یہ پہلو انتہائی قابل توجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جنھیں اللہ تعالی نے (رحمة للعالمين) فرمایاہے جب ان کی زندگی کا شدید ترین دن تھا یعنی جب نبی کریمﷺ طائف تشریف لے گئےاور مشرکین نے نہ صرف یہ کی آپ ﷺ کی بات سنی اور انتہائی گستاخی سے پیش آئے بلکہ بچوں کو نبی کریمﷺ کے پیچھے لگادیا جنہوں نے اس حد تک سنگ ہاری کی کہ نبی اکرمﷺ کا جسد اطہر لہولہان ہوگیا اس وقت بھی آپ نے ان کو بددعا دینے سے اجتناب کیا لیکن جنگ خندق میں مصروفیت کی وجہ سے نماز عصر رہ گئی تو طائف میں خاموش رہنے والی زبان سے بھی بددعا نکل گئی۔اور بددعا بھی اتنی شدید کہ اللہ کرے کہ ان کے گھروں میں آسمان سے آگ برسے اور جب مرجائیں تو قبروں میں بھی آگ کا ایندھن بنے رہیں۔ان لوگوں کو غور کرنا چاہیے جو محض کاہلی کی وجہ سے یا کھیل کود میں مصروفیت کی وجہ سے یا کاروبار یا کسی دوسری مشغولیت کی وجہ سے نماز چھوڑدیتے ہیں ان کا یہ عمل آپﷺ کی نظر میں کس قدر قابل نفرت اور کتنا عظیم جرم ہے۔اللہ ہمیں اپنے غضب سے محفوظ رکھے۔آمین،