Book - حدیث 677

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الْإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ صحیح حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلَاةِ فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ

ترجمہ Book - حدیث 677

کتاب: نماز سے متعلق احکام ومسائل باب: سخت گرمی کے ایام میں ظہر کو ٹھنڈا کرنا سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب گرمی شدید ہو تو نماز ٹھنڈی کر لو کیوں کہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہے۔‘‘
تشریح : 1۔شدید گرمی میں نماز کو تاخیر سے ادا کرنے میں یہ حکمت ہے کہ گرمی کی شدت نماز میں توجہ اور خشوع سے رکاوٹ بنتی ہے اس لیے گرمی کی تخفیف کے وقت نماز زیادہ توجہ سے ادا کی جاسکے گی تاہم یہ تاخیر بہت زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ 2۔گرمی کی شدت کو جہنم کی بھاپ کی وجہ قرار دیا گیا ہے اس کو بعض علماء نے تشبیہ اور مجاز پر محمول کیا ہے لیکن زیادہ بہتر یہ ہے کہ اسے حقیقت پر محمول کیا جائے کیونکہ ظاہری حالات کچھ اسباب ہمیں معلوم ہوتے ہیں اور کچھ ایسے اسباب بھی ہوتے ہیں جن کا تعلق عالم غیب مثلاً: فرشتوں یا جنت یا جہنم سے ہوتا ہے۔عالم غیب پر ایمان لانے کے بعد اس کے بعض امور کا ظاہری دنیا کے معاملات سے متعلق ہونا کسی اشکال کا باعث نہیں۔رسول اللہﷺ نے فرمایا: جہنم نے رب سے شکایت کرتے ہوئے عرض کیا:یا رب میرا ایک حصہ دوسرے کو کھائے جارہا ہے( میری حرارت کود میرے لیے ناقابل برداشت ہوئی جاتی ہے) تو اللہ تعالی نے اسے دوسانس لینے کی اجازت دی ایک سانس سردی کے موسم میں اور ایک سانس گرمی کے موسم میں تم لوگ جو سخت ترین گرمی( کی لہر) یا سخت ترین سردی(کی لہر)محسوس کرتے ہو وہ یہی ہے۔ ( صحيح البخاري بدء الخلق باب صفة النار وانها مخلوقة حديث:٣٢٦- وصحيح مسلم المساجد باب استجاب الابراد بالظهر في شدة الحر لمن يمضي الي جماعة ويناله الحر في طريقه حديث:٦١٧) 1۔شدید گرمی میں نماز کو تاخیر سے ادا کرنے میں یہ حکمت ہے کہ گرمی کی شدت نماز میں توجہ اور خشوع سے رکاوٹ بنتی ہے اس لیے گرمی کی تخفیف کے وقت نماز زیادہ توجہ سے ادا کی جاسکے گی تاہم یہ تاخیر بہت زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ 2۔گرمی کی شدت کو جہنم کی بھاپ کی وجہ قرار دیا گیا ہے اس کو بعض علماء نے تشبیہ اور مجاز پر محمول کیا ہے لیکن زیادہ بہتر یہ ہے کہ اسے حقیقت پر محمول کیا جائے کیونکہ ظاہری حالات کچھ اسباب ہمیں معلوم ہوتے ہیں اور کچھ ایسے اسباب بھی ہوتے ہیں جن کا تعلق عالم غیب مثلاً: فرشتوں یا جنت یا جہنم سے ہوتا ہے۔عالم غیب پر ایمان لانے کے بعد اس کے بعض امور کا ظاہری دنیا کے معاملات سے متعلق ہونا کسی اشکال کا باعث نہیں۔رسول اللہﷺ نے فرمایا: جہنم نے رب سے شکایت کرتے ہوئے عرض کیا:یا رب میرا ایک حصہ دوسرے کو کھائے جارہا ہے( میری حرارت کود میرے لیے ناقابل برداشت ہوئی جاتی ہے) تو اللہ تعالی نے اسے دوسانس لینے کی اجازت دی ایک سانس سردی کے موسم میں اور ایک سانس گرمی کے موسم میں تم لوگ جو سخت ترین گرمی( کی لہر) یا سخت ترین سردی(کی لہر)محسوس کرتے ہو وہ یہی ہے۔ ( صحيح البخاري بدء الخلق باب صفة النار وانها مخلوقة حديث:٣٢٦- وصحيح مسلم المساجد باب استجاب الابراد بالظهر في شدة الحر لمن يمضي الي جماعة ويناله الحر في طريقه حديث:٦١٧)