Book - حدیث 672

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ وَقْتِ صَلَاةِ الْفَجْرِ حسن صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ سَمِعَ عَاصِمَ بْنَ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ وَجَدُّهُ بَدْرِيٌّ يُخْبِرُ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَصْبِحُوا بِالصُّبْحِ فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ أَوْ لِأَجْرِكُمْ

ترجمہ Book - حدیث 672

کتاب: نماز سے متعلق احکام ومسائل باب: فجر کی نماز کا وقت سیدنا رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’صبح کو روشن کرو، اس میں زیادہ ثواب ہے۔‘‘ یا فرمایا: ’’اس سے تمہیں زیادہ ثواب ملے گا۔‘‘
تشریح : : صبح کو روشن کرو کا یہ مطلب لینا کہ فجر کی نماز اس وقت پڑھی جائے جب خوب روشنی پھیل جائے(جیسا کہ احناف کے ہاں معمول ہے) غلط ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے خلاف ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ غلس اندھیرے میں اول وقت میں فجر کی نماز پڑھتے رہے۔اس لیے اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ فجر کی نماز اس وقت ادا کی جائے جب صبح صادق طلوع ہوجانے کا یقین ہوجائے۔صبح کاذب میں ادا نہ کی جائے یا پھر یہ مطلب ہے کہ قرات طویل کرو تاکہ نماز سے فارغ ہوتو صبح روشنی ہوچکی ہو کیونکہ گزشتہ احادیث سے اول وقت پڑھنے کی فضیلت ظاہر ہے۔ : صبح کو روشن کرو کا یہ مطلب لینا کہ فجر کی نماز اس وقت پڑھی جائے جب خوب روشنی پھیل جائے(جیسا کہ احناف کے ہاں معمول ہے) غلط ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے خلاف ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ غلس اندھیرے میں اول وقت میں فجر کی نماز پڑھتے رہے۔اس لیے اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ فجر کی نماز اس وقت ادا کی جائے جب صبح صادق طلوع ہوجانے کا یقین ہوجائے۔صبح کاذب میں ادا نہ کی جائے یا پھر یہ مطلب ہے کہ قرات طویل کرو تاکہ نماز سے فارغ ہوتو صبح روشنی ہوچکی ہو کیونکہ گزشتہ احادیث سے اول وقت پڑھنے کی فضیلت ظاہر ہے۔