Book - حدیث 67

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِي الْإِيمَانِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ، وَوَالِدِهِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ»

ترجمہ Book - حدیث 67

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: ایمان سے متعلق احکام ومسائل حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ‘‘تم میں سے کوئی شخص ایمان دار نہیں ہو سکتاحتٰی کہ میں اسے اس کی اولاد، والد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہو جاؤں۔’’
تشریح : (1) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ایمان کی بنیاد ہے جس قدر محبت پختہ ہو گی، اسی قدر ایمان بھی زیادہ ہو گا۔ محبت میں کمی بیشی ایمان میں کمی بیشی کی دلیل ہے۔ (3) محبت کا معیار زبانی دعویٰ نہیں بلکہ اطاعت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: () (آل عمران:31) کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ (3) اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دوسروں سے زیادہ ہونے کا پتہ تب چلتا ہے جب اولاد کی محبت، والدین کی محبت یا کسی بزرگ یا دوست کی ؐحبت کسی ایسے کام کا تقاضا کرے جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہو، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت زیادہ ہو گی تو دوسروں کی ناراضی کی پروا نہیں ہو گی بلکہ انسان دوسروں کو ناراض کر کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور اسوہ پر عمل کرے گا، اگر دوسروں کی محبت زیادہ ہو گی تو شریعت کی مخالفت کا ارتکاب کر کے انہیں خوش کرنے کی کوشش کی جائے گا جو ایمان کے مطلوبہ معیار کے خلاف ہے۔ اسی طرح قوم اور قبیلہ کے رسم و رواج کی بھی یہی حیثیت ہے۔ (1) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ایمان کی بنیاد ہے جس قدر محبت پختہ ہو گی، اسی قدر ایمان بھی زیادہ ہو گا۔ محبت میں کمی بیشی ایمان میں کمی بیشی کی دلیل ہے۔ (3) محبت کا معیار زبانی دعویٰ نہیں بلکہ اطاعت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: () (آل عمران:31) کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ (3) اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دوسروں سے زیادہ ہونے کا پتہ تب چلتا ہے جب اولاد کی محبت، والدین کی محبت یا کسی بزرگ یا دوست کی ؐحبت کسی ایسے کام کا تقاضا کرے جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہو، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت زیادہ ہو گی تو دوسروں کی ناراضی کی پروا نہیں ہو گی بلکہ انسان دوسروں کو ناراض کر کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور اسوہ پر عمل کرے گا، اگر دوسروں کی محبت زیادہ ہو گی تو شریعت کی مخالفت کا ارتکاب کر کے انہیں خوش کرنے کی کوشش کی جائے گا جو ایمان کے مطلوبہ معیار کے خلاف ہے۔ اسی طرح قوم اور قبیلہ کے رسم و رواج کی بھی یہی حیثیت ہے۔