كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ وَقْتِ صَلَاةِ الْفَجْرِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كُنَّ نِسَاءُ الْمُؤْمِنَاتِ يُصَلِّينَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ ثُمَّ يَرْجِعْنَ إِلَى أَهْلِهِنَّ فَلَا يَعْرِفُهُنَّ أَحَدٌ تَعْنِي مِنْ الْغَلَسِ
کتاب: نماز سے متعلق احکام ومسائل
باب: فجر کی نماز کا وقت
سیدہ عائشہ ؓا سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایا: مومن خواتین نبی ﷺ کے ساتھ فجر کی نماز( باجماعت) ادا کیا کرتی تھیں، اس کے بعد وہ گھروں کو واپس جاتیں تو انہیں کوئی نہ پہچان سکتا، یعنی اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔
تشریح :
1۔اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز اول وقت میں ادا کرتے تھے ۔
2۔نمازوں میں عورتیں بھی مردوں کے ساتھ شریک ہوتی تھیں۔اس میں یہ حکمت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلموعظ و نصیحت فرماتےیا آپ سے مسائل دریافت کیے جاتے تو عورتیں بھی سنتیں اور دین کا علم حاصل کرتیں۔بعض اوقات کوئی عورت خود بھی کوئی مسئلہ دریافت کر لیتی تھی۔اب بھی عورتیں آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے نماز کے لیے مسجد میں آنا چاہیں تو انہیں منع نہیں کرنا چاہیے اگرچہ گھر میں نماز پڑھنا عورتوں کے لیے مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
3۔ام المومنین کی وضاحت سے پتا چلتا ہے کہ عورتوں کے پہچانے نہ جانے کا سبب یہ ہوتا تھا کہ نماز سے فراغت کے وقت اتنی روشنی نہیں ہوتی تھی کہ معلوم ہو سکے کہ چادر اوڑھ کر جانے والی یہ عورت کون ہے؟ زیادہ روشنی میں باپردہ ہونے کے باوجود اس عورت کو پہچانا جاسکتا ہے جو رشتہ داروں میں سے ہو اور مرد اس سے واقف ہو۔
4۔فجر میں قرات طویل ہونے کے باوجود اتنی جلدی فارغ ہوجانے سے معلوم ہوتا ہے ہے کہ نماز بہت جلد کھڑی ہوجاتی تھی اور نماز اول وقت میں ادا کی جاتی تھی۔
5۔عورتیں نماز کا سلام پھیرنے کے بعد ذکر اذکار کے لیے نہیں بیٹھتی تھیں بلکہ فوراً اٹھ کر چلی جاتی تھیں جب کہ مرد اس وقت تک اٹھتے تھے جب تک تمام عورتیں مسجد سے چلی نہ جاتیں۔جیسے کہ دیگر احادیث میں صراحت ہے۔
1۔اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز اول وقت میں ادا کرتے تھے ۔
2۔نمازوں میں عورتیں بھی مردوں کے ساتھ شریک ہوتی تھیں۔اس میں یہ حکمت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلموعظ و نصیحت فرماتےیا آپ سے مسائل دریافت کیے جاتے تو عورتیں بھی سنتیں اور دین کا علم حاصل کرتیں۔بعض اوقات کوئی عورت خود بھی کوئی مسئلہ دریافت کر لیتی تھی۔اب بھی عورتیں آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے نماز کے لیے مسجد میں آنا چاہیں تو انہیں منع نہیں کرنا چاہیے اگرچہ گھر میں نماز پڑھنا عورتوں کے لیے مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
3۔ام المومنین کی وضاحت سے پتا چلتا ہے کہ عورتوں کے پہچانے نہ جانے کا سبب یہ ہوتا تھا کہ نماز سے فراغت کے وقت اتنی روشنی نہیں ہوتی تھی کہ معلوم ہو سکے کہ چادر اوڑھ کر جانے والی یہ عورت کون ہے؟ زیادہ روشنی میں باپردہ ہونے کے باوجود اس عورت کو پہچانا جاسکتا ہے جو رشتہ داروں میں سے ہو اور مرد اس سے واقف ہو۔
4۔فجر میں قرات طویل ہونے کے باوجود اتنی جلدی فارغ ہوجانے سے معلوم ہوتا ہے ہے کہ نماز بہت جلد کھڑی ہوجاتی تھی اور نماز اول وقت میں ادا کی جاتی تھی۔
5۔عورتیں نماز کا سلام پھیرنے کے بعد ذکر اذکار کے لیے نہیں بیٹھتی تھیں بلکہ فوراً اٹھ کر چلی جاتی تھیں جب کہ مرد اس وقت تک اٹھتے تھے جب تک تمام عورتیں مسجد سے چلی نہ جاتیں۔جیسے کہ دیگر احادیث میں صراحت ہے۔