Book - حدیث 667

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ وَأَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَا حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ ح وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّقِّيُّ حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ فَقَالَ صَلِّ مَعَنَا هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ فَلَمَّا زَالَتْ الشَّمْسُ أَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الظُّهْرَ ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ حِينَ غَابَتْ الشَّمْسُ ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْفَجْرَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ فَلَمَّا كَانَ مِنْ الْيَوْمِ الثَّانِي أَمَرَهُ فَأَذَّنَ الظُّهْرَ فَأَبْرَدَ بِهَا وَأَنْعَمَ أَنْ يُبْرِدَ بِهَا ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ أَخَّرَهَا فَوْقَ الَّذِي كَانَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ قَبْلَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ وَصَلَّى الْعِشَاءَ بَعْدَ مَا ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ وَصَلَّى الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ بِهَا ثُمَّ قَالَ أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ فَقَالَ الرَّجُلُ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ وَقْتُ صَلَاتِكُمْ بَيْنَ مَا رَأَيْتُمْ

ترجمہ Book - حدیث 667

کتاب: نماز سے متعلق احکام ومسائل باب: اوقات نماز کے احکام و مسائل سیدنا بریدہ بن حصیب ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور نماز کے اوقات کے متعلق سوال کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ دو دن ہمارے ساتھ نمازیں پڑھو۔‘‘ تو جب سورج ڈھلا آپ نے سیدنا بلال ؓ کو حکم دیا تو انہوں نے اذان کہی، پھر حکم دیا تو انہوں نے ظہر کی اقامت کہی( اور نماز ادا کی گئی)، پھر نبی ﷺ نے حکم دیا تو انہوں نے عصر کی اقامت کہی، جب کہ سورج بلند، سفید اور روشن تھا۔ پھر حکم دیا تو انہوں نے مغرب کی اقامت کہی جب سورج غروب ہوا، پھر جب شفق غروب ہوگئی تو انہیں حکم دیا اور انہوں نے عشاء کی اقامت کہی، پھر جب صبح صادق طلوع ہوئی تو انہیں حکم دیا اور انہوں نے فجر کی اقامت کہی۔( اس طرح پانویں نماز اول وقت میں ادا فرمائیں۔) جب دوسرا دن ہوا تو انہیں حکم دیا اور انہوں نے ٹھنڈی کر کے ظہر کی اذان دی اور خوب ہی ٹھنڈی کی، پھر عصڑ کی نماز پڑھی جب کہ سورج بلند تھا، لیکن کل کی نسبت تاخیر فرمائی، پھر شفق غروب ہونے سے پہلے مغرب کی نماز پڑھی اور تہائی رات گزرنے کے بعد عشاء کی نماز ادا فرمائی، پھر فجر کی نماز خوب روشن کر کے پڑھی، پھر فرمایا: ’’نماز کے اوقات پوچھنے والا کہاں ہے؟‘‘ اس نے کہا، اللہ کے رسول! وہ میں ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو اوقات تم نے دیکھے ہیں، تمہاری نمازوں کے اوقات ان کے درمیان ہیں۔‘‘
تشریح : 1۔اوقات کی تعلیم کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر اول اور آخر وقت میں نمازیں پڑھ کر دکھائیں۔اس سے تعلیم میں عملی اسوہ کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ 2۔نماز میں افضل یہ ہے کہ اول وقت میں ادا کی جائےلیکن آخری وقت میں بھی ادا کرنے سے ادا ہوجاتی ہے۔ 3۔تعلیم کے لیے یا کسی اور جائز مقصد کے پیش نظر افضل کام کو چھوڑ کر غیر افضل جائز کام اختیار کیا جاسکتا ہے لیکن اسے مستقل عادت بنانا درست نہیں۔ 4۔نماز ظہر کا وقت سورج ڈھلتے ہئ شروع ہوجاتا ہے۔ڈھلنے کا مطلب یہ ہے کہ سورج اپنی سب سے زیادہ بلندی تک پہنچ کر نیچے آنا شروع ہوجائے۔اس کا اندازہ سائے سے ہوتا ہے جب کہ دیوار وغیرہ کا سایہ مشرق کی طرف زمین پر آجائے۔ 5،ظہر کی نماز ٹھنڈی کر نے کا مطلب یہ ہے کہ گرمی کی شدت کم ہونے کا انتظار کیا جائے۔موسم گرما میں دوپہر کو بہت شدت کی گرمی ہوتی ہے۔اس لیے زوال کے فورا بعد نماز پڑھنے کے بجائے کچھ ٹھر کر ادا کی جاسکتی ہے البتہ سردی کے موسم میں انتظار کی ضرورت نہیں، 6۔اس حدیث میں عصر کا وقت دونوں دنوں میں ملتے جلتے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے یعنی فرمایا گیا ہے کہ سورج بلند تھا بلندی کی وضاحت آئندہ احا دیث سے ہوگی۔ 7۔مغرب کا وقت سورج کی ٹیا افق سے غائب ہونے پر شروع ہوتا ہےاور کتم ہونے پر ختم ہوجاتا ہے۔شفق سے مراد وہ سرخی ہے جو سورج غروب ہونے کے بعد مغرب کی طرف آتی ہے۔ 8۔عشاء کا وقت شفق غروب ہونے سے شروع ہوتا ہے۔اس کا آخری وقت ا س حدیث کی روشنی میں تہائی رات معلوم ہوتا ہے۔بعض دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عشاء کی نماز آدھی رات تک ادا کی جاسکتی ہے مثلاً:صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی حدیث موجود ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اوقات بیان کرتے ہوئے عشاء کی نماز کے بارے میں فرمایا: (ووقت صلاة العشاء الي نصف اليل ) (صحيح مسلم المساجد باب اوقات الصلوت الخمس حديث:٦١٢) اور عشاء كی نماز کا وقت آدھی رات تک ہے۔ 9۔فجر کی نماز کا وقت صبح صادق سے شروع ہوتا ہے لیکن سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے پڑھ لینی چاہیے البتہ کسی عذر کی بناء پر تاخیر ہوجائے تو سورج طلوع ہونے سے پہلے ایک رکعت ادا ہوجائے تو بروقت ادائیگی ہی سمجھی جائے گی۔ارشاد نبوی ہے: جسے سورج نکلنے سے پہلے نماز صبح کی ایک رکعت مل گئی اسے صبح کی نماز مل گئی اور جسے سورج غروب ہونے سے پہلے عصر کی ایک رکعت مل گئی۔ ( صحيح البخاري موافقيت الصلاة باب من ادرك من الفجر ركعة حديث:٥٧٩ وصحيح مسلم المساجد باب من ادرك ركعة من الصلوةفقد ادرك تلك الصلاۃ حدیث:608) 10۔نماز کے اوقات ان دو ایام میں ادا شدہ نمازوں کے اوقات کے درمیان میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر نماز کے ابتدائی اور آخری اوقات بتا دیے گیے ہیں جو شخص ان دو اوقات کے درمیان کسی وقت نماز ادا کرلے گا اس کی نماز ادا ہوجائے گی۔اس کا یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیےکہ اول وقت کو چھوڑ کر وقت کی ابتداء اور انتہاء کے عین درمیان کے وقت کو نماز کے لیے متعین کردیا جائے کیونکہ اگر یہ مطلب قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صرف درمیان کے تھوڑے سے وقت میں نماز ادا کرنی چاہیے۔اس طرح نماز کے اوقات میں جو گنجائش ہے وہ ختم ہوجائے گی مثلاًاگر مذکورہ دودنوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پہلے دن تین بجے ادا کی ہواور دوسرے دن پانچ بجے تو اس جملہ سے یہ مطلب لینا درست نہیں کہ صحیح وقت چار بجے ہے ورنہ یہ لازم آئے گا کہ ان دونوں دنوں میں نمازیں بے وقت ادا ہوئیں۔اور یہ بات صریحاً غلط ہے۔ 1۔اوقات کی تعلیم کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر اول اور آخر وقت میں نمازیں پڑھ کر دکھائیں۔اس سے تعلیم میں عملی اسوہ کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ 2۔نماز میں افضل یہ ہے کہ اول وقت میں ادا کی جائےلیکن آخری وقت میں بھی ادا کرنے سے ادا ہوجاتی ہے۔ 3۔تعلیم کے لیے یا کسی اور جائز مقصد کے پیش نظر افضل کام کو چھوڑ کر غیر افضل جائز کام اختیار کیا جاسکتا ہے لیکن اسے مستقل عادت بنانا درست نہیں۔ 4۔نماز ظہر کا وقت سورج ڈھلتے ہئ شروع ہوجاتا ہے۔ڈھلنے کا مطلب یہ ہے کہ سورج اپنی سب سے زیادہ بلندی تک پہنچ کر نیچے آنا شروع ہوجائے۔اس کا اندازہ سائے سے ہوتا ہے جب کہ دیوار وغیرہ کا سایہ مشرق کی طرف زمین پر آجائے۔ 5،ظہر کی نماز ٹھنڈی کر نے کا مطلب یہ ہے کہ گرمی کی شدت کم ہونے کا انتظار کیا جائے۔موسم گرما میں دوپہر کو بہت شدت کی گرمی ہوتی ہے۔اس لیے زوال کے فورا بعد نماز پڑھنے کے بجائے کچھ ٹھر کر ادا کی جاسکتی ہے البتہ سردی کے موسم میں انتظار کی ضرورت نہیں، 6۔اس حدیث میں عصر کا وقت دونوں دنوں میں ملتے جلتے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے یعنی فرمایا گیا ہے کہ سورج بلند تھا بلندی کی وضاحت آئندہ احا دیث سے ہوگی۔ 7۔مغرب کا وقت سورج کی ٹیا افق سے غائب ہونے پر شروع ہوتا ہےاور کتم ہونے پر ختم ہوجاتا ہے۔شفق سے مراد وہ سرخی ہے جو سورج غروب ہونے کے بعد مغرب کی طرف آتی ہے۔ 8۔عشاء کا وقت شفق غروب ہونے سے شروع ہوتا ہے۔اس کا آخری وقت ا س حدیث کی روشنی میں تہائی رات معلوم ہوتا ہے۔بعض دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عشاء کی نماز آدھی رات تک ادا کی جاسکتی ہے مثلاً:صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی حدیث موجود ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اوقات بیان کرتے ہوئے عشاء کی نماز کے بارے میں فرمایا: (ووقت صلاة العشاء الي نصف اليل ) (صحيح مسلم المساجد باب اوقات الصلوت الخمس حديث:٦١٢) اور عشاء كی نماز کا وقت آدھی رات تک ہے۔ 9۔فجر کی نماز کا وقت صبح صادق سے شروع ہوتا ہے لیکن سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے پڑھ لینی چاہیے البتہ کسی عذر کی بناء پر تاخیر ہوجائے تو سورج طلوع ہونے سے پہلے ایک رکعت ادا ہوجائے تو بروقت ادائیگی ہی سمجھی جائے گی۔ارشاد نبوی ہے: جسے سورج نکلنے سے پہلے نماز صبح کی ایک رکعت مل گئی اسے صبح کی نماز مل گئی اور جسے سورج غروب ہونے سے پہلے عصر کی ایک رکعت مل گئی۔ ( صحيح البخاري موافقيت الصلاة باب من ادرك من الفجر ركعة حديث:٥٧٩ وصحيح مسلم المساجد باب من ادرك ركعة من الصلوةفقد ادرك تلك الصلاۃ حدیث:608) 10۔نماز کے اوقات ان دو ایام میں ادا شدہ نمازوں کے اوقات کے درمیان میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر نماز کے ابتدائی اور آخری اوقات بتا دیے گیے ہیں جو شخص ان دو اوقات کے درمیان کسی وقت نماز ادا کرلے گا اس کی نماز ادا ہوجائے گی۔اس کا یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیےکہ اول وقت کو چھوڑ کر وقت کی ابتداء اور انتہاء کے عین درمیان کے وقت کو نماز کے لیے متعین کردیا جائے کیونکہ اگر یہ مطلب قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صرف درمیان کے تھوڑے سے وقت میں نماز ادا کرنی چاہیے۔اس طرح نماز کے اوقات میں جو گنجائش ہے وہ ختم ہوجائے گی مثلاًاگر مذکورہ دودنوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پہلے دن تین بجے ادا کی ہواور دوسرے دن پانچ بجے تو اس جملہ سے یہ مطلب لینا درست نہیں کہ صحیح وقت چار بجے ہے ورنہ یہ لازم آئے گا کہ ان دونوں دنوں میں نمازیں بے وقت ادا ہوئیں۔اور یہ بات صریحاً غلط ہے۔