Book - حدیث 644

کِتَابُ التَّيَمَُ بَابُ مَا جَاءَ فِي مُؤَاكَلَةِ الْحَائِضِ وَسُؤْرِهَا صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ الْيَهُودَ كَانُوا لَا يَجْلِسُونَ مَعَ الْحَائِضِ فِي بَيْتٍ وَلَا يَأْكُلُونَ وَلَا يَشْرَبُونَ قَالَ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اصْنَعُوا كُلَّ شَيْءٍ إِلَّا الْجِمَاعَ

ترجمہ Book - حدیث 644

کتاب: تیمم کے احکام ومسائل باب: حائضہ کے ساتھ مل کر کھانا اور اس کا جھوٹا کھا پی لینا درست ہے سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ یہودی گھر میں حائضہ عورت کے پاس نہیں بیٹھتے تھے ،نہ( اس کے ساتھ مل کر) کھاتے پیتے تھے۔ نبی ﷺ سے اس بات کا ذکر کیا گیا( اور مسئلہ دریافت کیا گیا) تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فر دی:’’اور آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں، فر دیجیئے ،وہ گندگی ہے، سو تم حیض( کے ایام) میں عورتوں سے الگ رہو۔‘‘ (اس کی وضاحت کرتے ہوئے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم جماع کے سوا سب کچھ کر سکتے ہو۔‘‘
تشریح : 1۔سابقہ شریعتوں میں احکام شریعت محمدی کی نسبت سخت تھے۔بعض مسائل میں خود یہود نے سختی پیدا کرلی تھی انہی میں طہارت ونجاست کے مسائل بھی تھے۔چنانچہ یہودی ان ایام میں عورت کو الگ کمرے یا خیمے میں رہنے کا حکم دیتے تھے کیونکہ ان کی رائےمیں وہ جس بستر پر بیٹھ جائے جو کپڑا پہن لے یا جس چیز کو ہاتھ لگادے وہ ناپاک ہوجاتی ہے حتی کہ اگر کوئی شخص اس کے بستر کو چھولے تو وہ بھی ناپاک ہوجاتا ہےاور اسے غسل کرنا پڑتا ہے۔(دیکھیے عہد نامہ قدیم کتاب احبار باب15 فقرہ:19 تا 23) 2۔اسلام میں طہارت اور صفائی کی بہت اہمیت ہے لیکن یہود جیسے سخت احکام نہیں اس لیے حیض ونفاس کے ایام میں مباشرت تو جائز نہیںلیکن عورت کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا پیار کرنا سب کچھ جائز ہے البتہ مباشرت حرام ہے جیسے کہ گزشتہ ابواب میں بیان ہوا۔ 3۔جس شخص کو خطرہ محسوس ہو کہ پیار کرنے کی صورت میں وہ اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکے گااور ممنوع کام کا ارتکاب کر بیٹھے گا تو اس اجازت سے فائدہ اٹھانے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے اس کے لیے بہتر ہے کہ ان ایام میں بیوی سے دور ہی رہے۔ 1۔سابقہ شریعتوں میں احکام شریعت محمدی کی نسبت سخت تھے۔بعض مسائل میں خود یہود نے سختی پیدا کرلی تھی انہی میں طہارت ونجاست کے مسائل بھی تھے۔چنانچہ یہودی ان ایام میں عورت کو الگ کمرے یا خیمے میں رہنے کا حکم دیتے تھے کیونکہ ان کی رائےمیں وہ جس بستر پر بیٹھ جائے جو کپڑا پہن لے یا جس چیز کو ہاتھ لگادے وہ ناپاک ہوجاتی ہے حتی کہ اگر کوئی شخص اس کے بستر کو چھولے تو وہ بھی ناپاک ہوجاتا ہےاور اسے غسل کرنا پڑتا ہے۔(دیکھیے عہد نامہ قدیم کتاب احبار باب15 فقرہ:19 تا 23) 2۔اسلام میں طہارت اور صفائی کی بہت اہمیت ہے لیکن یہود جیسے سخت احکام نہیں اس لیے حیض ونفاس کے ایام میں مباشرت تو جائز نہیںلیکن عورت کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا پیار کرنا سب کچھ جائز ہے البتہ مباشرت حرام ہے جیسے کہ گزشتہ ابواب میں بیان ہوا۔ 3۔جس شخص کو خطرہ محسوس ہو کہ پیار کرنے کی صورت میں وہ اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکے گااور ممنوع کام کا ارتکاب کر بیٹھے گا تو اس اجازت سے فائدہ اٹھانے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے اس کے لیے بہتر ہے کہ ان ایام میں بیوی سے دور ہی رہے۔