Book - حدیث 631

کِتَابُ التَّيَمَُ بَابُ الْحَائِضِ لَا تَقْضِي الصَّلَاةَ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ مُعَاذَةَ الْعَدَوِيَّةِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتْهَا أَتَقْضِي الْحَائِضُ الصَّلَاةَ قَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ قَدْ كُنَّا نَحِيضُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ نَطْهُرُ وَلَمْ يَأْمُرْنَا بِقَضَاءِ الصَّلَاةِ

ترجمہ Book - حدیث 631

کتاب: تیمم کے احکام ومسائل باب: عورت حیض کے دنوں میں چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا نہ دے جناب معاذہ عدویہ ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ ؓا سے ایک عورت نے سوال کیا: کیا حیض والی عورت نماز کی قضا دے گی؟ سیدہ عائشہ ؓا نے اس سے کہا: کیا تو حروری( خارجی) ہے؟ ہمیں نبی ﷺ کی موجودگی میں حیض آتا تھا، پھر ہم پاک ہو جاتی تھیں، تو آپ ﷺ نے ہمیں( کبھی )نماز کی قضا دینے کا حکم نہیں فرمایا۔
تشریح : 1۔عورت حیض کی حالت میں نماز نہیں پڑھ سکتی۔(صحيح البخاري الحيض باب ترك الحائض الصوم حديث:304)۔ اس مسئلہ پر بعض خوارج کے سوا تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔اس لیے حضرت عائشہ نے اس خاتون کے سوال پر تعجب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے سوال تو خارجی کرتے ہیں۔ 2۔یہ اللہ کا عورتوں پر احسان ہے کہ اس نے ان ایام کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضاء کا حکم نہیں دیاورنہ ہر مہینے آٹھ دس دن کی مسلسل قضاء نمازیں ادا کرنا بہت مشکل ہوتا۔اس کے برعکس روزے سال میں ایک ہی دفعہ آتے ہیں لہذا چھوٹے ہوئے آٹھ دس روزے سال کے گیارہ مہینوں میں کسی بھی وقت رکھ لینا مشکل نہیں۔ 3۔عبادات میں یہ اصول ہے کہ کوئی رمل اس وقت تک واجب نہیں ہوتاجب تک اس کا حکم نہ دیا جائے اس سے حضرت عائشہ نے استدلال کرتے ہوئے فرمایاکہ اگر ان نمازوں کی قضاء واجب ہوتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضرور حکم فرماتے۔اس کے برعکس معاملات میں جواز اور اباحت اصل ہے۔جب تک کسی کام کی ممانعت کی دلیل نہ ہو وہ جائز ہی سمجھا جائے گا،اس اصول کو برات اصلية کہتے ہیں۔ 1۔عورت حیض کی حالت میں نماز نہیں پڑھ سکتی۔(صحيح البخاري الحيض باب ترك الحائض الصوم حديث:304)۔ اس مسئلہ پر بعض خوارج کے سوا تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔اس لیے حضرت عائشہ نے اس خاتون کے سوال پر تعجب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے سوال تو خارجی کرتے ہیں۔ 2۔یہ اللہ کا عورتوں پر احسان ہے کہ اس نے ان ایام کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضاء کا حکم نہیں دیاورنہ ہر مہینے آٹھ دس دن کی مسلسل قضاء نمازیں ادا کرنا بہت مشکل ہوتا۔اس کے برعکس روزے سال میں ایک ہی دفعہ آتے ہیں لہذا چھوٹے ہوئے آٹھ دس روزے سال کے گیارہ مہینوں میں کسی بھی وقت رکھ لینا مشکل نہیں۔ 3۔عبادات میں یہ اصول ہے کہ کوئی رمل اس وقت تک واجب نہیں ہوتاجب تک اس کا حکم نہ دیا جائے اس سے حضرت عائشہ نے استدلال کرتے ہوئے فرمایاکہ اگر ان نمازوں کی قضاء واجب ہوتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضرور حکم فرماتے۔اس کے برعکس معاملات میں جواز اور اباحت اصل ہے۔جب تک کسی کام کی ممانعت کی دلیل نہ ہو وہ جائز ہی سمجھا جائے گا،اس اصول کو برات اصلية کہتے ہیں۔