Book - حدیث 63

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِي الْإِيمَانِ صحیح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَجَاءَ رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ شَعَرِ الرَّأْسِ، لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ سَفَرٍ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، قَالَ: فَجَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْنَدَ رُكْبَتَهُ إِلَى رُكْبَتِهِ، وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ: «شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ، وَحَجُّ الْبَيْتِ» قَالَ: صَدَقْتَ، فَعَجِبْنَا مِنْهُ، يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، مَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: «أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَرُسُلِهِ، وَكُتُبِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ» ، قَالَ: صَدَقْتَ، فَعَجِبْنَا مِنْهُ، يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، مَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ: «أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ لَا تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ» ، قَالَ: فَمَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: «مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ» ، قَالَ: فَمَا أَمَارَتُهَا؟ قَالَ: «أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا» - قَالَ: وَكِيعٌ: يَعْنِي تَلِدُ الْعَجَمُ الْعَرَبَ - «وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبِنَاءِ» قَالَ: ثُمَّ قَالَ: فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ثَلَاثٍ، فَقَالَ: «أَتَدْرِي مَنِ الرَّجُلُ؟» قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «ذَاكَ جِبْرِيلُ، أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ مَعَالِمَ دِينِكُمْ»

ترجمہ Book - حدیث 63

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: ایمان سے متعلق احکام ومسائل حضرت عمر ؓ سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آیا جس کے کپڑے انتہائی سفید اور سر کے بال انتہائی سیاہ تھے۔ اس پر سفر کے اثرات( گردو غبار اور تھکن وغیرہ ) نظر نہیں آ رہے تھے اور اسے ہم میں سے کوئی پہشانتا نہیں تھا۔ وہ نبی ﷺ کے پاس آکر بیٹھ گیا، اپنے گھٹنے آپ کے گٹھنوں سے ملادیے اور اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر رکھ لیے، پھر اس نے کاہ: اے محمد(ﷺ) ! اسلام کیا ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا:‘‘اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوال کوئی معبود نہیں اور میں (محمد) اللہ کا رسول ہوں، نماز قائم کرنا، زکاة دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔’’ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ آپ ﷺ سے سوال کرتا ہے اور( خود ہی) تصدیق بھی کرتا ہے( کہ آپ کا جواب صحیح ہے، پھر اس نے کہا: اے محمد(ﷺ)! ایمان کیا ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا:‘‘ (ایمان یہ ہے کہ) تو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کے رسولوں پر، اس کی کتابوں پر، قیامت پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لائے۔’’ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ ہیں اس پر تعجب ہوا کہ آپ ﷺ سے سوال بھی کرتا ہے اور آپ کی تصدیق بھی کرتا ہے، پھر اس نے کہا: اے محمد(ﷺ)! احسان کیا ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا:‘‘ (احسان یہ ہے کہ) تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے، اگر تو اسے نہیں دیکھتا تو وہ تو تجھے دیکھتا ہے۔ ’’ اس نے کہا: قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا؛‘‘جس سے اس کے متعلق پوچھا جا رہا ہے ،وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ ’’ اس نے کہا: اس کی علامت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:‘‘ (قرب قیامت کی علامتیں یہ ہیں) لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی۔۔۔۔ وکیع ؓ نے کہا: یعنی عجم کی عورتوں سے عربوں کی اولاد ہوگی۔۔۔۔ اور یہ کہ تم ایسے لوگوں کو دیکھو گے جن کے پیروں میں جوتیاں نہیں، جسم پر کپڑے نہیں، مفلس ہیں( کھانے کو خوراک نہیں) بکریاں چراتے ہیں( لیکن پھر ان کے پاس اتنی دولت آجائے گی کہ) ایک دوسرے سے بڑھ کر بڑی بڑی عمارتیں بنائیں گے۔ ’’ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تین دن بعد نبی ﷺ مجھ سے ملے تو فرمایا:‘‘ کیا تم کو معلوم ہے وہ آدمی کون تھا؟’’ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے۔ آپ نے فرمایا:‘‘ وہ جبریل علیہ السلام تھے، تم لوگوں کو تمہارے دین کی اہم باتیں سکھانے آئے تھے۔ ’’
تشریح : (1) یہ حدیث حدیث جبرئیل کے نام سے مشہور ہے، اس میں دین کے اہم مسائل مذکور ہیں۔ اس مین عبادات بھی ہیں، دل اور باقی جسم کے اعمال بھی، واجبات، سنن اور مستحبات بھی اور ممنوع اور مکروہ امور بھی۔ (2) اسلام سے ظاہری اعمال مراد ہیں جن کو دیکھ کر کسی کے مسلم یا غیر مسلم ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اور ایمان سے قلبی تصدیق و یقین مراد ہے جس پر آخرت مین نجات کا دارومدار ہے۔ احسان بھی ایمان ہی کا اعلیٰ درجہ ہے جس کےسبب عبادت میں حسن پیدا ہوتا ہے۔ (3) اکثر اوقات جب ایمان کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے باطنی تصدیق کے ساتھ ساتھ ظاہری اعمال بھی مراد ہوتے ہیں۔ اسی طرح اسلام سے وہ اسلام مراد ہوتا ہے جس سے آخرت میں نجات حاصل ہو گی، یعنی دلی تصدیق کی بنیاد پر نیک اعمال کی انجام دہی، اس لحاظ سے ایمان اور اسلام ہم معنی ہو جاتے ہیں جب کہ الگ الگ ذکر ہوں، البتہ جب کسی مقام پر ایمان اور اسلام دونوں اکھٹے مذکور ہوں تو ایمان سے قلبی تصدیق مراد ہوتی ہے اور اسلام سے ظاہری اطاعت کے اعمال جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (قالَتِ الأَعر‌ابُ ءامَنّا قُل لَم تُؤمِنوا وَلـكِن قولوا أَسلَمنا) (الحجرات:14) بدو کہتے ہیں ہم ایمان لائے، آپ کہہ دیجئے (حقیقت میں) تم ایمان نہیں لائے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام لائے (مخالفت چھوڑ کر مطیع ہو گئے۔ ) (4) اللہ کی عبادت اس طرح کرنا جیسے کہ اللہ کی ذات رو برو ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قلبی توجہم انابت، خشوع، خوف و رجا وغیرہ کی کیفیات اپنے کمال پر ہوں، ورنہ اللہ کی زیارت دنیا میں رہے ہوئے ممکن نہیں، کوئی مخلوق اسے برداشت نہیں کر سکتی، البتہ جنت میں مومنوں کو اللہ کا دیدار نصیب ہو گا، اس میں کوئی شک نہیں، قرآن و حدیث کی واضح نصوص میں اس کی صراحت موجود ہے، البتہ اس کی کیفیت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ دیکھیے (صحيح البخاري‘ حديث:7437 اور صحيح مسلم‘ حديث: 182) (5) قیامت قائم ہونے کا وقت بالتعيين کوئی نہیں جانتا، پیغمبر نہ فرشتے، صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے کیونکہ وہی علام الغیوب ہے۔ (6) قیامت کی بہت سی علامات حدیثوں میں وارد ہیں، ان میں سے کچھ قیامت سے کافی پہلے واقع ہو چکی ہیں، مثلا: بعثت نبوی، ارض حجاز سے ظاہر ہونے والی آگ، جس سے شام کے شہر بصری میں بھی روشنی ہو گئی، یہ واقعہ 654 ھ میں پیش آیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (فتح الباري شرح صحيح البخاري‘ كتاب الفتن‘ باب خروج النار) اور بعض ابھی ظاہر ہونے والی ہیں، مثلا: ظہور دجال اور امام مہدی کا ظہور، نزول مسیح علیہ السلام اور یاجوج ماجوج کا خروج۔ یہ بڑی بڑی علامات ہیں، زیر نظر حدیث میں چھوٹی علامات ذکر کی گئی ہیں۔ (7) (ان تلد الامة ربتها) لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اس جملے کی وضاحت کئی طرح سے کی گئی ہے: (ا) ایک مطلب یہ ہے کہ لونڈیوں کی کثرت ہو جائے گی اور لونڈیوں سے جو اولاد ہو گی، وہ آقا کی اولاد ہونے کی وجہ سے آقا کے حکم میں ہو گی جبکہ ان کی ماں لونڈی ہی کہلائے گی اور بیٹی اپنی ماں کی مالک قرقر دی جائے گی۔ حضرت وکیع رحمۃ اللہ علیہ کا قول اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔ (ب) ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اولاد اپنے والدین کا ادب و احترام کرنے کے بجائے ان سے گستاخی اور سرکشی کا رویہ رکھے گی اور ان پر اس طرح حکم چلائے گی جس طرح آقا اپنے غلاموں اور لونڈیوں سے درشت سلوک روا رکھتے ہیں۔ (ج) ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ اس حدیث میں جدید دور میں پیدا ہونے والے بعض مسائل کی طرف اشارہ ہے، مثلا: ایسے تجربات کیے گئے ہیں جن میں مذکر اور مونث کے مادہ تولید کو مونث کے جسم سے باہر ملا کر تجربہ گاہ مین جنین وجود میں لایا گیا جسے بعد میں کسی اور مونث کے جسم میں رکھ کر تخلیقی مراحل کی تکمیل ہوئی۔ اس طرح مولود جس کے جسم میں پیدا ہوا، اس کے مادہ تولید سے پیدا نہین ہوا۔ ان تجربات کے نتیجے میں یہ عین ممکن ہے کہ کوئی دولت مند میاں بیوی اپنا جنین کسی غریب عورت کے جسم مین پروان چڑھائین جو تھوڑی اجرت کے بدلے مشقت برداشت کرنے پر تیار ہو سکتی ہے، جب بچہ پیدا ہو گا تو دولت مند میاں بیوی ہی اس کے ماں باپ مانے جائیں گے، اور جس عورت نے اس کی پیدائش کی تکلیف اٹھائی ہو گی، وہ اجیر یا مملوک ہی رہے گی اور پیدا ہونے والا بچہ اسے اپنی ماں نہیں بلکہ نوکرانی ہی تصور کرے گا اور خود وہ عورت بھی اپنی یہی حیثیت سمجھے گی۔ موجودہ دور میں اخلاقی اقدار جس تیزی سے روبہ زوال ہیں، اس کے مدنظر یہ کچھ بعید نہیں کہ عملا یہ صورت رواج پا جائے۔ واللہ اعلم. یورپ میں، جہاں عفت و پاک دامنی کا تصور ختم ہو گیا ہے، اب اس قسم کی صورتیں اختیار کی جانے لگی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسلامی معاشروں کو اس اخلاقی پستی سے محفوظ رکھے۔ (8) جب غربت کے بعد دولت نصیب ہو تو صحیح طرز عمل یہ ہے کہ اللہ کی اس نعمت کا شکر کرتے ہوئے ناداروں کی ضروریات بھی پوری کی جائیں تاکہ اخروی فوائد بھی حاصل ہو سکیں، جیسے قاروں کو اس کی قوم کے افراد نے کہا تھا: (وَابتَغِ فيما ءاتىكَ اللَّهُ الدّارَ‌ الءاخِرَ‌ةَ وَلا تَنسَ نَصيبَكَ مِنَ الدُّنيا وَأَحسِن كَما أَحسَنَ اللَّهُ إِلَيكَ) (القصص:77) اور جو کچھ اللہ نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھول اور جیسے اللہ نے تجھ پر احسان کیا ہے تو بھی (دوسروں پر) احسان کر۔ (9) محض اپنے فائدے اور راحت کے لیے اور فخرومباہات کے لیے لمبی چوڑی عمارتیں بنانا درست نہیں۔ (10) عقائد اور اعمال یہ سب دین ہے، لہذا اخروی نجات کے لیے صحیح عقیدہ اور صحیح عمل دونوں ضروری ہیں۔ (11) تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ ابد تک جو کچھ ہو گا اللہ کو وہ سب کچھ پہلے سے معلوم ہے۔ اب جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کے اس علم کے مطابق ہوتا ہے جو اس نے لکھ رکھاہے۔ تقدیر کے اچھے برے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے لیے بظاہر خیر ہے، مثلا: تندرستی، خوشحالی، پیداوار کی کثرت اور فراوانی یا جسے ہم شر قرار دیتے ہیں، مثلا: قحط سالی، آلام و مصائب، یہ سب کچھ اس کی مرضی اور حکمت کے مطابق ہو رہا ہے۔ اسے خیر و شر مخلوق کے لحاظ سے فرمایا گیا ہے ورنہ اللہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت و مصلحت ہوتی ہے، اس کے لحاظ سے وہ خیر ہی ہوتا ہے۔ (12) جبریل امین علیہ السلام کا قرآنی وحی کے لر آنا تو مشہور و معروف ہے، علاوہ ازیں دین اسلام کے مسائل کی توضیح و تعلیم کے لیے جبریل علیہ السلام کا آنا بھی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ (13) دینی و اسلامی مسائل سیکھنے کے متعدد طریقے ہیں، ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سوالات و جوابات کی مجلس و نشست قائم کی جائے، اس انداز سے مسائل خوب ذہن نشین ہو جاتے ہیں۔ (14) سائل کو مسئول کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ادب و احترام سے بیٹھنا چاہیے اور انداز گفتگو نہایت نرم اور مؤدبانہ ہونا چاہیے۔ (15) جبریل امین علیہ السلام نے سفید لباس اختیار کیا تھا، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفید لباس پر رغبت دلائی اور خود بھی پسند کیا حتی کہ مُردوں کے لیے بھی سفید کفن کو منتخب کیا۔ (جامع الترمذي‘ الادب‘ باب ما جاء في لبس البياض‘ حديث:2810) (1) یہ حدیث حدیث جبرئیل کے نام سے مشہور ہے، اس میں دین کے اہم مسائل مذکور ہیں۔ اس مین عبادات بھی ہیں، دل اور باقی جسم کے اعمال بھی، واجبات، سنن اور مستحبات بھی اور ممنوع اور مکروہ امور بھی۔ (2) اسلام سے ظاہری اعمال مراد ہیں جن کو دیکھ کر کسی کے مسلم یا غیر مسلم ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اور ایمان سے قلبی تصدیق و یقین مراد ہے جس پر آخرت مین نجات کا دارومدار ہے۔ احسان بھی ایمان ہی کا اعلیٰ درجہ ہے جس کےسبب عبادت میں حسن پیدا ہوتا ہے۔ (3) اکثر اوقات جب ایمان کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے باطنی تصدیق کے ساتھ ساتھ ظاہری اعمال بھی مراد ہوتے ہیں۔ اسی طرح اسلام سے وہ اسلام مراد ہوتا ہے جس سے آخرت میں نجات حاصل ہو گی، یعنی دلی تصدیق کی بنیاد پر نیک اعمال کی انجام دہی، اس لحاظ سے ایمان اور اسلام ہم معنی ہو جاتے ہیں جب کہ الگ الگ ذکر ہوں، البتہ جب کسی مقام پر ایمان اور اسلام دونوں اکھٹے مذکور ہوں تو ایمان سے قلبی تصدیق مراد ہوتی ہے اور اسلام سے ظاہری اطاعت کے اعمال جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (قالَتِ الأَعر‌ابُ ءامَنّا قُل لَم تُؤمِنوا وَلـكِن قولوا أَسلَمنا) (الحجرات:14) بدو کہتے ہیں ہم ایمان لائے، آپ کہہ دیجئے (حقیقت میں) تم ایمان نہیں لائے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام لائے (مخالفت چھوڑ کر مطیع ہو گئے۔ ) (4) اللہ کی عبادت اس طرح کرنا جیسے کہ اللہ کی ذات رو برو ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قلبی توجہم انابت، خشوع، خوف و رجا وغیرہ کی کیفیات اپنے کمال پر ہوں، ورنہ اللہ کی زیارت دنیا میں رہے ہوئے ممکن نہیں، کوئی مخلوق اسے برداشت نہیں کر سکتی، البتہ جنت میں مومنوں کو اللہ کا دیدار نصیب ہو گا، اس میں کوئی شک نہیں، قرآن و حدیث کی واضح نصوص میں اس کی صراحت موجود ہے، البتہ اس کی کیفیت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ دیکھیے (صحيح البخاري‘ حديث:7437 اور صحيح مسلم‘ حديث: 182) (5) قیامت قائم ہونے کا وقت بالتعيين کوئی نہیں جانتا، پیغمبر نہ فرشتے، صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے کیونکہ وہی علام الغیوب ہے۔ (6) قیامت کی بہت سی علامات حدیثوں میں وارد ہیں، ان میں سے کچھ قیامت سے کافی پہلے واقع ہو چکی ہیں، مثلا: بعثت نبوی، ارض حجاز سے ظاہر ہونے والی آگ، جس سے شام کے شہر بصری میں بھی روشنی ہو گئی، یہ واقعہ 654 ھ میں پیش آیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (فتح الباري شرح صحيح البخاري‘ كتاب الفتن‘ باب خروج النار) اور بعض ابھی ظاہر ہونے والی ہیں، مثلا: ظہور دجال اور امام مہدی کا ظہور، نزول مسیح علیہ السلام اور یاجوج ماجوج کا خروج۔ یہ بڑی بڑی علامات ہیں، زیر نظر حدیث میں چھوٹی علامات ذکر کی گئی ہیں۔ (7) (ان تلد الامة ربتها) لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اس جملے کی وضاحت کئی طرح سے کی گئی ہے: (ا) ایک مطلب یہ ہے کہ لونڈیوں کی کثرت ہو جائے گی اور لونڈیوں سے جو اولاد ہو گی، وہ آقا کی اولاد ہونے کی وجہ سے آقا کے حکم میں ہو گی جبکہ ان کی ماں لونڈی ہی کہلائے گی اور بیٹی اپنی ماں کی مالک قرقر دی جائے گی۔ حضرت وکیع رحمۃ اللہ علیہ کا قول اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔ (ب) ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اولاد اپنے والدین کا ادب و احترام کرنے کے بجائے ان سے گستاخی اور سرکشی کا رویہ رکھے گی اور ان پر اس طرح حکم چلائے گی جس طرح آقا اپنے غلاموں اور لونڈیوں سے درشت سلوک روا رکھتے ہیں۔ (ج) ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ اس حدیث میں جدید دور میں پیدا ہونے والے بعض مسائل کی طرف اشارہ ہے، مثلا: ایسے تجربات کیے گئے ہیں جن میں مذکر اور مونث کے مادہ تولید کو مونث کے جسم سے باہر ملا کر تجربہ گاہ مین جنین وجود میں لایا گیا جسے بعد میں کسی اور مونث کے جسم میں رکھ کر تخلیقی مراحل کی تکمیل ہوئی۔ اس طرح مولود جس کے جسم میں پیدا ہوا، اس کے مادہ تولید سے پیدا نہین ہوا۔ ان تجربات کے نتیجے میں یہ عین ممکن ہے کہ کوئی دولت مند میاں بیوی اپنا جنین کسی غریب عورت کے جسم مین پروان چڑھائین جو تھوڑی اجرت کے بدلے مشقت برداشت کرنے پر تیار ہو سکتی ہے، جب بچہ پیدا ہو گا تو دولت مند میاں بیوی ہی اس کے ماں باپ مانے جائیں گے، اور جس عورت نے اس کی پیدائش کی تکلیف اٹھائی ہو گی، وہ اجیر یا مملوک ہی رہے گی اور پیدا ہونے والا بچہ اسے اپنی ماں نہیں بلکہ نوکرانی ہی تصور کرے گا اور خود وہ عورت بھی اپنی یہی حیثیت سمجھے گی۔ موجودہ دور میں اخلاقی اقدار جس تیزی سے روبہ زوال ہیں، اس کے مدنظر یہ کچھ بعید نہیں کہ عملا یہ صورت رواج پا جائے۔ واللہ اعلم. یورپ میں، جہاں عفت و پاک دامنی کا تصور ختم ہو گیا ہے، اب اس قسم کی صورتیں اختیار کی جانے لگی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسلامی معاشروں کو اس اخلاقی پستی سے محفوظ رکھے۔ (8) جب غربت کے بعد دولت نصیب ہو تو صحیح طرز عمل یہ ہے کہ اللہ کی اس نعمت کا شکر کرتے ہوئے ناداروں کی ضروریات بھی پوری کی جائیں تاکہ اخروی فوائد بھی حاصل ہو سکیں، جیسے قاروں کو اس کی قوم کے افراد نے کہا تھا: (وَابتَغِ فيما ءاتىكَ اللَّهُ الدّارَ‌ الءاخِرَ‌ةَ وَلا تَنسَ نَصيبَكَ مِنَ الدُّنيا وَأَحسِن كَما أَحسَنَ اللَّهُ إِلَيكَ) (القصص:77) اور جو کچھ اللہ نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھول اور جیسے اللہ نے تجھ پر احسان کیا ہے تو بھی (دوسروں پر) احسان کر۔ (9) محض اپنے فائدے اور راحت کے لیے اور فخرومباہات کے لیے لمبی چوڑی عمارتیں بنانا درست نہیں۔ (10) عقائد اور اعمال یہ سب دین ہے، لہذا اخروی نجات کے لیے صحیح عقیدہ اور صحیح عمل دونوں ضروری ہیں۔ (11) تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ ابد تک جو کچھ ہو گا اللہ کو وہ سب کچھ پہلے سے معلوم ہے۔ اب جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کے اس علم کے مطابق ہوتا ہے جو اس نے لکھ رکھاہے۔ تقدیر کے اچھے برے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے لیے بظاہر خیر ہے، مثلا: تندرستی، خوشحالی، پیداوار کی کثرت اور فراوانی یا جسے ہم شر قرار دیتے ہیں، مثلا: قحط سالی، آلام و مصائب، یہ سب کچھ اس کی مرضی اور حکمت کے مطابق ہو رہا ہے۔ اسے خیر و شر مخلوق کے لحاظ سے فرمایا گیا ہے ورنہ اللہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت و مصلحت ہوتی ہے، اس کے لحاظ سے وہ خیر ہی ہوتا ہے۔ (12) جبریل امین علیہ السلام کا قرآنی وحی کے لر آنا تو مشہور و معروف ہے، علاوہ ازیں دین اسلام کے مسائل کی توضیح و تعلیم کے لیے جبریل علیہ السلام کا آنا بھی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ (13) دینی و اسلامی مسائل سیکھنے کے متعدد طریقے ہیں، ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سوالات و جوابات کی مجلس و نشست قائم کی جائے، اس انداز سے مسائل خوب ذہن نشین ہو جاتے ہیں۔ (14) سائل کو مسئول کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ادب و احترام سے بیٹھنا چاہیے اور انداز گفتگو نہایت نرم اور مؤدبانہ ہونا چاہیے۔ (15) جبریل امین علیہ السلام نے سفید لباس اختیار کیا تھا، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفید لباس پر رغبت دلائی اور خود بھی پسند کیا حتی کہ مُردوں کے لیے بھی سفید کفن کو منتخب کیا۔ (جامع الترمذي‘ الادب‘ باب ما جاء في لبس البياض‘ حديث:2810)