كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِي الْإِيمَانِ ضعیف حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نِزَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صِنْفَانِ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ لَيْسَ لَهُمَا فِي الْإِسْلَامِ نَصِيبٌ: الْمُرْجِئَةُ وَالْقَدَرِيَّةُ
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: ایمان سے متعلق احکام ومسائل
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:‘‘میری امت کی دو جماعتیں ایسی ہیں، جن کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں: مُرْجِئَہ اور قَدَرِیَّہ۔’’
تشریح :
(1) یہ روایت تو سندا ضعیف ہے، تاہم مرجئه اور قدريه فرقوں کا وجود ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے، اس لیے ذیل میں ان کے عقائد کا تذکرہ اور اہل سنت کے ان کے فرق و اختلاف کی تفصیل بیان کرنا مناسب معلوم ہوتی ہے۔ (المُرجئه‘ الارجاء) کے معنی موخر کرنا یا امید دلانا ہیں۔ (مرجئه) کو مرجئه کہنے کی چند وجوہات ہو سکتی ہیں: ٭ (مرجئه) عمل کو نیت اور اعتقاد سے موخر کرتے ہیں۔ ٭ ان کا یہ کہنا ہے کہ ایمان کے ساتھ معصیت کچھ مضر نہیں جیسا کہ کفر کے ساتھ اطاعت مفید نہیں۔ & کبیرہ گناہ کے مرتکب شخص کے معاملے کو آخرت کے دن تک مؤخر کرنا۔ دنیا میں اس کے جنتی یا جہنمی ہونے کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت میں پہلے سے چوتھے نمبر پر مؤخر کرنا۔ (2) مُرجئه کی اقسام: مُرجئه کے مندرجہ ذیل فرقے ہیں: *الجهمية الصالحية *الشمرية *اليُونسية *اليونانية * النجارية *الغيلانية *الحنفية *السبيبية *المعاذية *المريسة * الكرامية. (3) مُرجئه کے چند اہم عقائد یہ ہیں: ٭ ان کے نزدیک جس شخص نے کلمہ طیبہ کا اقرار کر لیا وہ ہرگز دوزخ میں نہیں جائے گا اگرچہ کفروشرک کی ہر غلاظت میں ملوث ہو جائے۔ ٭ ان کے نزدیک ایمان صرف قول کا نام ہے، عمل اس میں شامل نہیں، اس لیے چاند، سورج اور بت کو سجدہ کرنا کفر نہیں بلکہ صرف کفر کی علامت ہے۔ ٭ ایمان میں کمی بیشی نہیں ہوتی بلکہ ایک فاسق و فاجر شخص کا ایمان انبیاء اور فرشتوں کے ایمان کے برابر ہوتا ہے۔ ٭ یہ صفات الہی کے منکر ہیں اور قیامت کے روز دیدار الہی کے بھی منکر ہیں۔ (4) مُرجئه کے مقابلے میں اہل سنت والجماعت کے عقائد: مُرجئه اور دیگر فرقوں کے مقابلے میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ عدل و انصاف پر مبنی ہے اور اس کی بنیاد کتاب اللہ اور سنت نبوی کی صریح نصوص ہیں، اس لیے ان کے عقیدے میں کسی قسم کی کجی یا تضاد نہیں ہے بلکہ ان کا عقیدہ صاف، سیدھا اور برحق ہے۔ اہل سنت والجماعت کے چند اہم عقائد یہ ہیں:
٭ ان کے نزدیک ایمان اقرار لسانی، تصدیق قلبی اور اعمال کے مجموعے کا نام ہے۔ اعمال ایمان سے خارج نہیں۔ نیکیوں سے ایمان بڑھتا ہے اور گناہوں سے اس میں کمی آتی ہے۔ اس کی دلیل قرآن مجید کی متعدد آیات ہیں جن میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: (وَإِذا ما أُنزِلَت سورَةٌ فَمِنهُم مَن يَقولُ أَيُّكُم زادَتهُ هـذِهِ إيمـنًا فَأَمَّا الَّذينَ ءامَنوا فَزادَتهُم إيمـنًا وَهُم يَستَبشِرونَ) (التوبة: 124) اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا ہے؟ چنانچہ جو لوگ ایمان دار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں متعدد عناوین کے تحت اس مسئلے کو بیان کیا ہے،مثلا: (ان الايمان هو العمل‘الصلاة من الايمان‘ الزكاة من الايمان‘ اتباع الجنائز من الايمان‘ زياده الايمان و نقصانه) آیات قرآنی اور صحیح احادیث کی روشنی میں یہ واضح فرمایا ہے کہ اعمال ایمان کا حصہ ہیں اور اطاعت سے ایمان میں اضافہ اور نافرمانی سے اس میں کمی ہوتی ہے۔
٭ اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ مومن اپنے بعض گناہوں کی بنا پر دوزخ میں جا سکتا ہے لیکن وہ اپنے ایمان کی وجہ سے ایک نہ ایک دن جہنم سے نکل آئے گا، ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں نہین رہے گا۔ اس کی دلیل حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے لا اله الا الله کا اقرار کیا اور اس کے دل میں جَو کے وزن کے برابر ایمان ہوا وہ جہنم سے نکل آئے گا اور جس نے لا اله الا الله کو مان لیا اور اس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر ایمان ہوا وہ دوزخ سے نکل آئے گا، جس نے لا اله الا الله کی تصدیق کی اور اس کے دل میں ذرے کے برابر ایمان ہوا وہ بھی آگ سے نجات پا لے گا۔ (صحيح البخاري‘ الايمان‘ باب زيادة الايمان و نقصانه‘ حديث:44) نیز آپ کا ارشاد گرامی ہے: (من قال لا اله الا الله انجته يوما من دهره اصابه قبل ذلك ما اصابه) جس شخص نے لا اله الا الله کا اقرار کیا اور اسے یہ کلمہ طیبہ جہنم سے ایک نہ ایک دن نجات دلا دے گا اگرچہ اس سے پہلے اسے کچھ عذاب ہو بھی چکا ہو۔ (حلية الاولياء:5/46‘وشرب الايمان‘ باب في الايمان بالله عزوجل‘ حديث:96‘97) یہ حکم اس شخص کا ہے جس نے لا اله الا الله کا اقرار کیا اور تمام واجبات و شرائط کا لحاظ رکھا اور خود کو کفر و شرک سے محفوظ رکھا۔ واللہ اعلم.
٭ اہل سنت والجماعت للہ تعالیٰ کے تمام اسماء و صفات پر ایمان رکھتے ہیں اور اس میں تشبیہ، تمثیل، تکیف یا تاویل کے بغیر ایمان لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ صفات اللہ تعالیٰ کی شان اور علو مرتبہ کے لائق ہیں۔ کسی مخلوق کی صفت کے ساتھ ان کی مشابہت لازم نہیں آتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (ليس كمثله شئ) اس جیسی کوئی چیز نہیں۔ نیز اہل سنت والجماعت قیامت کے روز مومنوں کو دیدار الہی ہونے کے قائل ہیں، اس کی دلیل میں صحیحین کی یہ روایت پیش کی جاتی ہے: صحابہ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کا دیدار کر سکیں گے؟ آپ نے فرمایا: تم چودھویں رات کے چاند کو دیکھنے میں کوئی مشکل پاتے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا: نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: کیا سورج کو دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت ہوتی ہے جبکہ اس کے سامنے کوئی بادل بھی نہ ہو؟ صحابہ نے عرض کیا: نہیں، اے اللہ کے رسول! تو آپ نے فرمایا: تم اسی طرح بلا مشقت و رکاوٹ اپنے رب کا دیدار کرو گے.... (صحيح البخاري‘ التوحيد‘ باب قول الله تعاليٰ (وُجوهٌ يَومَئِذٍ ناضِرَةٌ ﴿٢٢﴾ إِلى رَبِّها ناظِرَةٌ) حديث:7437 وصحيه مسلم‘ الايمان‘ باب معرفة طريق الروية‘ حديث:182)
(1) یہ روایت تو سندا ضعیف ہے، تاہم مرجئه اور قدريه فرقوں کا وجود ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے، اس لیے ذیل میں ان کے عقائد کا تذکرہ اور اہل سنت کے ان کے فرق و اختلاف کی تفصیل بیان کرنا مناسب معلوم ہوتی ہے۔ (المُرجئه‘ الارجاء) کے معنی موخر کرنا یا امید دلانا ہیں۔ (مرجئه) کو مرجئه کہنے کی چند وجوہات ہو سکتی ہیں: ٭ (مرجئه) عمل کو نیت اور اعتقاد سے موخر کرتے ہیں۔ ٭ ان کا یہ کہنا ہے کہ ایمان کے ساتھ معصیت کچھ مضر نہیں جیسا کہ کفر کے ساتھ اطاعت مفید نہیں۔ & کبیرہ گناہ کے مرتکب شخص کے معاملے کو آخرت کے دن تک مؤخر کرنا۔ دنیا میں اس کے جنتی یا جہنمی ہونے کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت میں پہلے سے چوتھے نمبر پر مؤخر کرنا۔ (2) مُرجئه کی اقسام: مُرجئه کے مندرجہ ذیل فرقے ہیں: *الجهمية الصالحية *الشمرية *اليُونسية *اليونانية * النجارية *الغيلانية *الحنفية *السبيبية *المعاذية *المريسة * الكرامية. (3) مُرجئه کے چند اہم عقائد یہ ہیں: ٭ ان کے نزدیک جس شخص نے کلمہ طیبہ کا اقرار کر لیا وہ ہرگز دوزخ میں نہیں جائے گا اگرچہ کفروشرک کی ہر غلاظت میں ملوث ہو جائے۔ ٭ ان کے نزدیک ایمان صرف قول کا نام ہے، عمل اس میں شامل نہیں، اس لیے چاند، سورج اور بت کو سجدہ کرنا کفر نہیں بلکہ صرف کفر کی علامت ہے۔ ٭ ایمان میں کمی بیشی نہیں ہوتی بلکہ ایک فاسق و فاجر شخص کا ایمان انبیاء اور فرشتوں کے ایمان کے برابر ہوتا ہے۔ ٭ یہ صفات الہی کے منکر ہیں اور قیامت کے روز دیدار الہی کے بھی منکر ہیں۔ (4) مُرجئه کے مقابلے میں اہل سنت والجماعت کے عقائد: مُرجئه اور دیگر فرقوں کے مقابلے میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ عدل و انصاف پر مبنی ہے اور اس کی بنیاد کتاب اللہ اور سنت نبوی کی صریح نصوص ہیں، اس لیے ان کے عقیدے میں کسی قسم کی کجی یا تضاد نہیں ہے بلکہ ان کا عقیدہ صاف، سیدھا اور برحق ہے۔ اہل سنت والجماعت کے چند اہم عقائد یہ ہیں:
٭ ان کے نزدیک ایمان اقرار لسانی، تصدیق قلبی اور اعمال کے مجموعے کا نام ہے۔ اعمال ایمان سے خارج نہیں۔ نیکیوں سے ایمان بڑھتا ہے اور گناہوں سے اس میں کمی آتی ہے۔ اس کی دلیل قرآن مجید کی متعدد آیات ہیں جن میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: (وَإِذا ما أُنزِلَت سورَةٌ فَمِنهُم مَن يَقولُ أَيُّكُم زادَتهُ هـذِهِ إيمـنًا فَأَمَّا الَّذينَ ءامَنوا فَزادَتهُم إيمـنًا وَهُم يَستَبشِرونَ) (التوبة: 124) اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا ہے؟ چنانچہ جو لوگ ایمان دار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں متعدد عناوین کے تحت اس مسئلے کو بیان کیا ہے،مثلا: (ان الايمان هو العمل‘الصلاة من الايمان‘ الزكاة من الايمان‘ اتباع الجنائز من الايمان‘ زياده الايمان و نقصانه) آیات قرآنی اور صحیح احادیث کی روشنی میں یہ واضح فرمایا ہے کہ اعمال ایمان کا حصہ ہیں اور اطاعت سے ایمان میں اضافہ اور نافرمانی سے اس میں کمی ہوتی ہے۔
٭ اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ مومن اپنے بعض گناہوں کی بنا پر دوزخ میں جا سکتا ہے لیکن وہ اپنے ایمان کی وجہ سے ایک نہ ایک دن جہنم سے نکل آئے گا، ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں نہین رہے گا۔ اس کی دلیل حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے لا اله الا الله کا اقرار کیا اور اس کے دل میں جَو کے وزن کے برابر ایمان ہوا وہ جہنم سے نکل آئے گا اور جس نے لا اله الا الله کو مان لیا اور اس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر ایمان ہوا وہ دوزخ سے نکل آئے گا، جس نے لا اله الا الله کی تصدیق کی اور اس کے دل میں ذرے کے برابر ایمان ہوا وہ بھی آگ سے نجات پا لے گا۔ (صحيح البخاري‘ الايمان‘ باب زيادة الايمان و نقصانه‘ حديث:44) نیز آپ کا ارشاد گرامی ہے: (من قال لا اله الا الله انجته يوما من دهره اصابه قبل ذلك ما اصابه) جس شخص نے لا اله الا الله کا اقرار کیا اور اسے یہ کلمہ طیبہ جہنم سے ایک نہ ایک دن نجات دلا دے گا اگرچہ اس سے پہلے اسے کچھ عذاب ہو بھی چکا ہو۔ (حلية الاولياء:5/46‘وشرب الايمان‘ باب في الايمان بالله عزوجل‘ حديث:96‘97) یہ حکم اس شخص کا ہے جس نے لا اله الا الله کا اقرار کیا اور تمام واجبات و شرائط کا لحاظ رکھا اور خود کو کفر و شرک سے محفوظ رکھا۔ واللہ اعلم.
٭ اہل سنت والجماعت للہ تعالیٰ کے تمام اسماء و صفات پر ایمان رکھتے ہیں اور اس میں تشبیہ، تمثیل، تکیف یا تاویل کے بغیر ایمان لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ صفات اللہ تعالیٰ کی شان اور علو مرتبہ کے لائق ہیں۔ کسی مخلوق کی صفت کے ساتھ ان کی مشابہت لازم نہیں آتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (ليس كمثله شئ) اس جیسی کوئی چیز نہیں۔ نیز اہل سنت والجماعت قیامت کے روز مومنوں کو دیدار الہی ہونے کے قائل ہیں، اس کی دلیل میں صحیحین کی یہ روایت پیش کی جاتی ہے: صحابہ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کا دیدار کر سکیں گے؟ آپ نے فرمایا: تم چودھویں رات کے چاند کو دیکھنے میں کوئی مشکل پاتے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا: نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: کیا سورج کو دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت ہوتی ہے جبکہ اس کے سامنے کوئی بادل بھی نہ ہو؟ صحابہ نے عرض کیا: نہیں، اے اللہ کے رسول! تو آپ نے فرمایا: تم اسی طرح بلا مشقت و رکاوٹ اپنے رب کا دیدار کرو گے.... (صحيح البخاري‘ التوحيد‘ باب قول الله تعاليٰ (وُجوهٌ يَومَئِذٍ ناضِرَةٌ ﴿٢٢﴾ إِلى رَبِّها ناظِرَةٌ) حديث:7437 وصحيه مسلم‘ الايمان‘ باب معرفة طريق الروية‘ حديث:182)