كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِي الْإِيمَانِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا خَلَّصَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ مِنَ النَّارِ وَأَمِنُوا، فَمَا مُجَادَلَةُ أَحَدِكُمْ لِصَاحِبِهِ فِي الْحَقِّ يَكُونُ لَهُ فِي الدُّنْيَا، أَشَدَّ مُجَادَلَةً مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لِرَبِّهِمْ فِي إِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ أُدْخِلُوا النَّارَ، قَالَ: يَقُولُونَ: رَبَّنَا، إِخْوَانُنَا، كَانُوا يُصَلُّونَ مَعَنَا، وَيَصُومُونَ مَعَنَا، وَيَحُجُّونَ مَعَنَا، فَأَدْخَلْتَهُمُ النَّارَ، فَيَقُولُ: اذْهَبُوا، فَأَخْرِجُوا مَنْ عَرَفْتُمْ مِنْهُمْ، فَيَأْتُونَهُمْ، فَيَعْرِفُونَهُمْ بِصُوَرِهِمْ، لَا تَأْكُلُ النَّارُ صُوَرَهُمْ، فَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ النَّارُ إِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ إِلَى كَعْبَيْهِ، فَيُخْرِجُونَهُمْ، فَيَقُولُونَ: رَبَّنَا، أَخْرَجْنَا مَنْ قَدْ أَمَرْتَنَا، ثُمَّ يَقُولُ: أَخْرِجُوا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ دِينَارٍ مِنَ الْإِيمَانِ، ثُمَّ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ نِصْفِ دِينَارٍ، ثُمَّ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَمَنْ لَمْ يُصَدِّقْ هَذَا، فَلْيَقْرَأْ {إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا} [النساء: 40]
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: ایمان سے متعلق احکام ومسائل
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:‘‘ جب اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) مومنوں کو جہنم سے نجات دے دے گا اور وہ امن میں ہو جائیں گے تو پھر وہ اپنے ان بھائیوں کے بارے میں جو (گناہوں کی کثرت کی وجہ سے) جہنم میں چلے گئے، اس قدر اصرار سے اپنے رب سے بار بار عرض کریں گے کہ دنیا میں اپنے بھائی سے اپنے حق کے لئے اس طرح جھگڑا نہ کیا ہوگا۔ وہ کہیں گے : اے ہمارے پروردگار! یہ ہمارے ساتھ روزے رکھا کرتے تھے، ہمارے ساتھ حج کرتے تھے، تو نے انہیں( اپنے عدل کی بنا پر) جہنم میں داخل کر دیا( اب اپنے فضل سے انہیں معاف فر دے) اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جاؤ جنہیں تم پہچانتے ہو( جہنم سے) نکال لو۔ وہ ان ( دوزخیوں) کے پاس آئیں گے اور انہیں ان کی شکلوں سے پہچان لیں گے۔ آگ ان کی گے اور عرض کریں گے: اے ہمارے رب! جن کا تو نے ہمیں حکم دیا تھا انہیں ہم نے نکال لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ پھر فرمائے گا: جس کے دل میں ایک دینار کے وزن برابر ایمان ہے اسے بھی نکال لو، پھر ( ارشاد ہوگا) جس کے دل میں نصف دینار کے وزن برابر ( ایمان ہے، اسے بھی نکال لو) اس کے بعد( یہاں تک حکم ہو جائے گا کہ) جس کے دل میں رائی کے دانے برابر ایمان ہے( اسے بھی جہنم سے نکال لو۔’’) حضرت ابو سعید ؓ نے فرمایا: جسے یقین نہ آئے وہ اس آیت کو پڑھ لے: ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۚ وَ اِنْ تَكُ حَسَـنَةً يُّضٰعِفْھَا وَ يُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ اَجْرًا عَظِيْمًا ﴾‘‘بے شک اللہ تعالیٰ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا، اور اگر( کسی کی کوئی نیکی ہوگی تو اسے کئی گنا بڑھا دے گا اور اسے اپنے پاس سے اجر عظیم عطا فرمائے گا۔
تشریح :
(1) قیامت کے دن شفاعت کبریٰ تو صرف حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص ہے لیکن دیگر انبیائے کرام علیھم السلام اور مومنین کو بھی درجہ بدرجہ شفاعت کی اجازت دی جائے گی۔ (2) کوئی نبی یا ولی اپنی مرضی سے کسی گناہ گار کو جہنم سے نجات نہیں دے سکتا بلکہ وہ حضرات اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے اور اپنے گناہ گار بھائیوں کے حق میں درخواست کریں گے، پھر جن کے حق میں اللہ چاہے گا شفاعت قبول فرما کر انہیں جہنم سے نجات دے دے گا۔ (3) گناہ گار مومن جہنم کی آگ میں اپنے چہروں کی وجہ سے پہچانے جائیں گے کہ یہ مومن ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ نیک مومن گناہ گاروں کو سجدوں کے نشانات سے پہچانیں گے۔ (صحيح بخاري‘ الرقاق‘ باب الصراط جسر جهنم‘ حديث:6573) اس سے نماز کی اہمیت بھی معلوم ہوتی ہے۔ (4) گناہ گاروں کو جہنم میں ان کے گناہوں کے مطابق کم یا زیادہ عذاب ہو گا۔ (5) تمام مومنوں کا ایمان برابر نہیں بلکہ کم زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ (6) اللہ کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ کم سے کم ایمان والا بھی نجات پا جائے گا لیکن مشرکین کو نجات نہیں ملے گی، انہوں نے جو نیکیاں خلوص سے کی ہوں گی، ان کا بدلہ یہ ملے گا کہ ان کے عذاب میں تخفیف ہو جائے گی لیکن وہ عذاب دائمی ہوتا رہے گا۔ (7) اس سے اللہ کا عدل ثابت ہوتا ہے کہ کافروں کو بھی عذاب میں برابر نہین رکھا جائے گا اور اس کی رحمت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ تھوڑی نیکیوں پر زیادہ ثواب مل جائے گا۔
(1) قیامت کے دن شفاعت کبریٰ تو صرف حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص ہے لیکن دیگر انبیائے کرام علیھم السلام اور مومنین کو بھی درجہ بدرجہ شفاعت کی اجازت دی جائے گی۔ (2) کوئی نبی یا ولی اپنی مرضی سے کسی گناہ گار کو جہنم سے نجات نہیں دے سکتا بلکہ وہ حضرات اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے اور اپنے گناہ گار بھائیوں کے حق میں درخواست کریں گے، پھر جن کے حق میں اللہ چاہے گا شفاعت قبول فرما کر انہیں جہنم سے نجات دے دے گا۔ (3) گناہ گار مومن جہنم کی آگ میں اپنے چہروں کی وجہ سے پہچانے جائیں گے کہ یہ مومن ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ نیک مومن گناہ گاروں کو سجدوں کے نشانات سے پہچانیں گے۔ (صحيح بخاري‘ الرقاق‘ باب الصراط جسر جهنم‘ حديث:6573) اس سے نماز کی اہمیت بھی معلوم ہوتی ہے۔ (4) گناہ گاروں کو جہنم میں ان کے گناہوں کے مطابق کم یا زیادہ عذاب ہو گا۔ (5) تمام مومنوں کا ایمان برابر نہیں بلکہ کم زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ (6) اللہ کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ کم سے کم ایمان والا بھی نجات پا جائے گا لیکن مشرکین کو نجات نہیں ملے گی، انہوں نے جو نیکیاں خلوص سے کی ہوں گی، ان کا بدلہ یہ ملے گا کہ ان کے عذاب میں تخفیف ہو جائے گی لیکن وہ عذاب دائمی ہوتا رہے گا۔ (7) اس سے اللہ کا عدل ثابت ہوتا ہے کہ کافروں کو بھی عذاب میں برابر نہین رکھا جائے گا اور اس کی رحمت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ تھوڑی نیکیوں پر زیادہ ثواب مل جائے گا۔