Book - حدیث 594

کِتَابُ التَّيَمَُ بَابُ مَا جَاءَ فِي قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ عَلَى غَيْرِ طَهَارَةٍ ضعیف حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِي الْخَلَاءَ فَيَقْضِي الْحَاجَةَ ثُمَّ يَخْرُجُ فَيَأْكُلُ مَعَنَا الْخُبْزَ وَاللَّحْمَ وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَلَا يَحْجُبُهُ وَرُبَّمَا قَالَ لَا يَحْجُزُهُ عَنْ الْقُرْآنِ شَيْءٌ إِلَّا الْجَنَابَةُ

ترجمہ Book - حدیث 594

کتاب: تیمم کے احکام ومسائل باب: بے وضو قرآن مجید کی تلاوت کرنے کا بیان جناب عبداللہ بن سلمہ ؓ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا: میں سیدنا علی بن ابو طالب ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔انہوں نے (مسائل بیان کرتے ہوئے) فرمایا: رسول اللہ ﷺ بیت الخلاء میں جاتے، قضائے حاجت سے فارغ ہو کر باہر تشریف لاتے تو ہمارے ساتھ روٹی گوشت تناول فرماتے اور قرآن کی تلاوت بھی کرتے۔ آپ ﷺ کو جنابت کے سوا کوئی چیز قرآن( کی تلاوت) سے مانع نہیں ہوتی تھی۔
تشریح : 1)امام ترمذی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے’’انھوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ ہمیں ہر حالت میں قرآن مجید پڑھاتے تھےجب تک جنابت سے نہ ہوتے۔(جامع الترمذي’’الطهارة باب ماجاء في الرجل يقراء القرآن علي كل حال مالم يكن جنبا حديث:١٤٦) امام ترمذی نے اس ھدیث کو روایت کرکے فرمایا:(حديث علي (هذا)حديث حسن صحيح) ‘’’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے بھی صحیح قراردیا ہے اور امام ذہبی نے ان کی تائید کی ہے 2۔حائضہ اور جنبی قرآن مجید کی تلاوت کرسکتے ہیں کہ نہیں؟اس بارے میں علماء میں اختلاف ہے۔اس مسئلے میں علماء کرام کے قابل ذکر تین اقوال ہیں: (ا) حائضہ عورت اور جنبی شخص مطلقاً تلاوت قرآن کرسکتے ہیں۔یہ رائے امام بخاری ‘’ابن حزم اور دیگے آئمہ کی ہے۔ (ب) حائضہ عورت اور جنبی شخص مطلقاً تلاوت نہیں کرسکتے۔یہ جمہور علماء کی رائے ہے۔ (ج) تیسری رائے یہ ہے کہ حائضہ عورت اور جنبی شخص کے لیے تلاوت کرنا مکروہ تنزیہی ہے’’یعنی اگر وہ تلاوت نہ کریں تو یہ افضل و بہتر ہےلیکن اگر تلاوت کرنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں۔یہ رائے مندرجہ ذیل اسباب کی بناء پر راجح ہے۔جمہور علماء جو تلاوت سے منع کے قائل ہیں ان کے تمام دلائل ضعیف اور ناقال استدلال ہیں۔مثلاً حدیث :( لاتقراءالحائض ولاالجنب شيئا من القرآن) جامع الترمذي’’الطهارة باب ماجاء في الجنب والحائض ‘’انهما لايقران القرآن حديث ١٣١’’وارواء الغليل١/٢-٦) اور(فاني لا احل المسجد لحائضولا جنب ) (ابو داؤد ‘’حديث:٢٣٢) اور اگر کوئی صحیح دلیل بھی ہے تو اس سے استدلال کرنا محل نظر ہے۔’’مثلاً:آیت قرآنی : (لايمسه الاالمطهرون) (الواقعه:٥٦/٧٩) سے استدلال کرنا درست نہیں کیونکہ یہاں (مطهرون) سے مراد فرشتے ہیں جیسا کہ سیاق سے ظاہر ہوتا ہے۔جن علمائے کرام کے نزدیک مطلقاً قرآن مجید جائز ہے ان کے دلائل عمومی ہیں۔اور ان سے مطلقاً جواز کا مفہوم لینا بھی محل نظر ہے کیونکہ ام عمومی دلائل کے باوجود بعض ایسی صورتین ملتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو نہ ہونے کی وجہ سے احتیاط پر عمل کیا ہے’’جیسے کہ اپ نے اس شخص کے سلام کا جواب نہیں دیا تھاجس نے آپ کو ایسے وقت میں سلام کہا جب آپ بے وضو تھے’’پھر آپ نے طہارت کے بعد اس کے سلام کا جواب دیا۔ایسے ہی دلائل کی بناء پر یہ کہا جاسکتا ہےکہ عدم طہارت کی حالت میں تلاوت قرآن سے اجتناب کرنا بہتر ہےجبکہ جواز میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ 3۔عہد حاضر میں بچیوں کے مدارس میں یہ مسئلہ عام طور سے پیش آتا رہتا ہے۔کبھی استانی اس مشکل کا شکار ہوتی ہیں تو کبھی طالبات کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے’’لہذا ان مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ مسئلہ مذکورہ میں محتاط اور قرین انصاف رائے یہی ہے کہ بغیر طہارت کے تلاوت کرنا مکروہ ہےاور ضرورت وحاجت کے وقت اسکی اجازت ہے۔ واللہ اعلم 1)امام ترمذی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے’’انھوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ ہمیں ہر حالت میں قرآن مجید پڑھاتے تھےجب تک جنابت سے نہ ہوتے۔(جامع الترمذي’’الطهارة باب ماجاء في الرجل يقراء القرآن علي كل حال مالم يكن جنبا حديث:١٤٦) امام ترمذی نے اس ھدیث کو روایت کرکے فرمایا:(حديث علي (هذا)حديث حسن صحيح) ‘’’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے بھی صحیح قراردیا ہے اور امام ذہبی نے ان کی تائید کی ہے 2۔حائضہ اور جنبی قرآن مجید کی تلاوت کرسکتے ہیں کہ نہیں؟اس بارے میں علماء میں اختلاف ہے۔اس مسئلے میں علماء کرام کے قابل ذکر تین اقوال ہیں: (ا) حائضہ عورت اور جنبی شخص مطلقاً تلاوت قرآن کرسکتے ہیں۔یہ رائے امام بخاری ‘’ابن حزم اور دیگے آئمہ کی ہے۔ (ب) حائضہ عورت اور جنبی شخص مطلقاً تلاوت نہیں کرسکتے۔یہ جمہور علماء کی رائے ہے۔ (ج) تیسری رائے یہ ہے کہ حائضہ عورت اور جنبی شخص کے لیے تلاوت کرنا مکروہ تنزیہی ہے’’یعنی اگر وہ تلاوت نہ کریں تو یہ افضل و بہتر ہےلیکن اگر تلاوت کرنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں۔یہ رائے مندرجہ ذیل اسباب کی بناء پر راجح ہے۔جمہور علماء جو تلاوت سے منع کے قائل ہیں ان کے تمام دلائل ضعیف اور ناقال استدلال ہیں۔مثلاً حدیث :( لاتقراءالحائض ولاالجنب شيئا من القرآن) جامع الترمذي’’الطهارة باب ماجاء في الجنب والحائض ‘’انهما لايقران القرآن حديث ١٣١’’وارواء الغليل١/٢-٦) اور(فاني لا احل المسجد لحائضولا جنب ) (ابو داؤد ‘’حديث:٢٣٢) اور اگر کوئی صحیح دلیل بھی ہے تو اس سے استدلال کرنا محل نظر ہے۔’’مثلاً:آیت قرآنی : (لايمسه الاالمطهرون) (الواقعه:٥٦/٧٩) سے استدلال کرنا درست نہیں کیونکہ یہاں (مطهرون) سے مراد فرشتے ہیں جیسا کہ سیاق سے ظاہر ہوتا ہے۔جن علمائے کرام کے نزدیک مطلقاً قرآن مجید جائز ہے ان کے دلائل عمومی ہیں۔اور ان سے مطلقاً جواز کا مفہوم لینا بھی محل نظر ہے کیونکہ ام عمومی دلائل کے باوجود بعض ایسی صورتین ملتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو نہ ہونے کی وجہ سے احتیاط پر عمل کیا ہے’’جیسے کہ اپ نے اس شخص کے سلام کا جواب نہیں دیا تھاجس نے آپ کو ایسے وقت میں سلام کہا جب آپ بے وضو تھے’’پھر آپ نے طہارت کے بعد اس کے سلام کا جواب دیا۔ایسے ہی دلائل کی بناء پر یہ کہا جاسکتا ہےکہ عدم طہارت کی حالت میں تلاوت قرآن سے اجتناب کرنا بہتر ہےجبکہ جواز میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ 3۔عہد حاضر میں بچیوں کے مدارس میں یہ مسئلہ عام طور سے پیش آتا رہتا ہے۔کبھی استانی اس مشکل کا شکار ہوتی ہیں تو کبھی طالبات کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے’’لہذا ان مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ مسئلہ مذکورہ میں محتاط اور قرین انصاف رائے یہی ہے کہ بغیر طہارت کے تلاوت کرنا مکروہ ہےاور ضرورت وحاجت کے وقت اسکی اجازت ہے۔ واللہ اعلم