Book - حدیث 572

کِتَابُ التَّيَمَُ بَابٌ فِي الْمَجْرُوحِ تُصِيبُهُ الْجَنَابَةُ فَيَخَافُ عَلَى نَفْسِهِ إِنِ اغْتَسَلَ حسن - دون بلاغ عطاء - حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ حَبِيبِ بْنِ أَبِي الْعِشْرِينِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يُخْبِرُ أَنَّ رَجُلًا أَصَابَهُ جُرْحٌ فِي رَأْسِهِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَصَابَهُ احْتِلَامٌ فَأُمِرَ بِالِاغْتِسَالِ فَاغْتَسَلَ فَكُزَّ فَمَاتَ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ قَتَلُوهُ قَتَلَهُمْ اللَّهُ أَوَلَمْ يَكُنْ شِفَاءَ الْعِيِّ السُّؤَالُ قَالَ عَطَاءٌ وَبَلَغَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْ غَسَلَ جَسَدَهُ وَتَرَكَ رَأْسَهُ حَيْثُ أَصَابَهُ الْجِرَاحُ

ترجمہ Book - حدیث 572

کتاب: تیمم کے احکام ومسائل باب: زخمی کو اگر غسل کرنے کی ضرورت میں(موت یا شدت مرض)کا خطرہ محسوس ہوتو (تیمم کر لے) سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں ایک آدمی کا سر زخمی ہوگیا۔ اس کے بعد( ایک دن) اسے احتلام ہوگیا۔(اس نے صحابہ کرام ؓم سے مسئلہ پوچھا) تو اسے نہانے کا حکم دیا گیا۔ اس نے غسل کیا تو( سردی کی شدت کی وجہ سے ) بیمار ہوگیا اور( اسی بیماری سے )فوت ہوگیا۔ نبی ﷺ کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو فرمایا:’’انہوں نے اسے قتل کر دیا، اللہ انہیں ہلاک کرے۔ کیا پوچھ لینا لاعلمی کا علاج نہیں؟‘‘ حضرت عطاء ؓ نے فرمایا:ہمیں روایت پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا:’’کاش وہ باقی جسم دھو لیتا اور سر کو رہنے دیتا جہاں اسے زخم تھا۔‘‘
تشریح : 1۔اگر پانی بہت ٹھنڈا ہو اور گرم کرنے کا انتظام نہ ہو اور ٹھنڈے پانی سے نہانے سے ہلاکت یا بیماری کا خوف ہوتو تیمم کرکے نماز پڑھی جاسکتی ہے۔عذر ختم ہونے پر غسل کرنا فرض ہوگا۔ 2۔حدیث میں (کز) کا لفظ ہے’’یعنی اسے کزاز کی بیماری لاحق ہوگئی۔یہ بیماری سردی کی شدت کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔ 3۔زخم کا ذکر کرنے سے اشارہ ملتا ہےکہ اس کی بیماری کا ایک سبب وہ زخم بھی تھا۔گویا اس کی وفات کی وجہ چدت کی سردی بھی تھی’’لیکن اس کے ساتھ ساتھ زخم پر ٹھنڈا پانی پڑنے کی وجہ سے اس کی بیماری نے اس قدر شدت اختیار کرلی کہ وہ فوت ہوگیا۔ 4۔فتوی دینے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے’’لہذا سائل کے حالات کو مدنظر رکھ کر مسئلہ بتانا چاہیے۔ 5۔اگر مسئلے میں کسی قسم کا اشکال ہوتو فتوی دینے سے پرہیز کرنا چاہیے اور اپنے سے بڑے عالم کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دینا چاہیے۔ 6۔غلطی پر تنبیہ کے لیے سخت الفاظ سے بھی زجروتوبیخ جائز ہےبشرطیکہ اس سے نامناسب ردعمل کا خطرہ نہ ہو۔ 7۔رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ بظاہر بددعا ہیں اللہ انھیں تباہ کرے لیکن آپﷺ کا مقصد بددعا کرنا نہیں بلکہ ناراضی کا اظہار تھا۔نبیﷺ نے اللہ تعالی سے دعا کی تھی جو قبول ہوئی کہ اگر کسی مسلمان کے حق میں بد دعا کے الفاظ زبان سے نکلیں تو وہ اس کے لیے رحمت اور مغفرت کا باعث بن جائیں۔(صحیح مسلم ‘’البروالصلة’’باب من لعنه الننبي ﷺ وسبه۔۔۔۔۔الخ’’حدیث:٢٦--) 8۔اسلامی شریعت کی بنیاد چونکہ آسانی اور سہولت پر ہے ‘’اس لیے اللہ تعالی نے عذر میں مبتلا لوگوں کے لیے عبادت ادا کرسکیں۔ارشاد باری تعالی ہے:(وما جعل عليكم في الدين من حرج ) الحج:٢٢/٧٨) اور ( اللہ تعالی نے )تم پر دین (کی کسی بات) میں تنگی نہیں کی۔”۔اور فرمایا:(يريد الله بكم اليسر ولايريد بكم العسر) (البقرة:٢/١٨٥) اللہ تمھارے حق میں آسانی چاہتا ہے’’سختی نہیں چاہتا اور فرمایا: ( فاتقو الله مااستطعتم ) (التغابن:١٦/٦٤) سو جہاں تک ہوسکے تم اللہ سے ڈرو۔ اور نبی ﷺ نے فرمایا :(اذا امرتكم بامر فاتوا منه ماستطعتم ) (صحیح البخاری ‘’الاعتصام بالکتاب والسنة’’باب الاقتدار بسنن رسول الله ﷺ حديث:٧٢٨٨’’وصحيح مسلم ‘’الحج’’باب فرض الحج مره في العمر’’حديث:١٣٣٧) جب میں تمھیں کوئی حکم دوں تو مقدور بھر اطاعت بجالاؤ۔ اسی طرح آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: دین اسلام ہے (صحیح البخاری ‘’للایمان ‘’باب الدین یسر ‘’حدیث :39) مریض کو پانی کے ساتھ طہارت حاصل کرنے کی استطاعت نہ ہو ‘’یعنی حدث اصغر وضو نہ ہونے کی صورت میں وضو اور حدث اکبر ناپاکی کی صورت کی صورت میں غسل کرنے سے عاجز ہو یا اس میں مرض میں اضافے کا خوف ہویا بیماری کے درست ہونے میں تاخیر کا اندیشہ ہوتووہ تیمم کرلے’’یعنی دونوں ہاتھوں کو پاک مٹی پر ایک بار مارے اور اپنی انگلیوں کے اندر کے حصے کو اپنے چہرے پر پھیرے اور ہتھیلیوں کو دونوں ہاتھوں پر پھیرے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔( وان كنتم مرضي او علي سفر او جاء احد منكم من الغائط او لمستم النساء فلم تجدوا مآء فتيمموا صعيداً طيباً فامسحوا بوجوهكم وايديكم منه) ( المائدة:٥/٦) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی بیت الخلاء سے ہوکر آیا ہویا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہوپھر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی لو اور اور اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح کرکے (تم تیمم )کرلو۔’’جو شخص پانی کے استعمال سے عاجز ہواس کا حکم وہی ہے’’جو اس شخص کا ہے جس کے پاس پانی ہی نہ ہوکیونکہ نبیﷺ کا ارشاد گرامی ہے: (انما الاعمال باالنيات وانما لكل امري ءمانوي) (صحیح البخاری’’بدء الوحی ‘’باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ﷺ حدیث:1) تمام اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کے لیے صرف وہی ہے جس کی وہ نیت کرے۔ مریض کے حالات مختلف ہوتے ہیں مثلاً: مرض معمولی ہو اور پانی کے استعمال سے ہلاکت،بیماری میں اضافے’’شفاء یابی میں تاخیر اور درد میں نمایاں اضافے کا کوئی خدشہ نہ ہو،جیسے سر درد یا داڑھ میں درد وغیرہ ہویا مریض کے لیے گرم پانی کا استعمال ممکن ہو اور اس سے اسے کوئی نقصان نہ پہنچتا ہوتو اس کے لیے تیمم جائز نہیں۔چونکہ تیمم کا جواز نفی ضرر کے لیے ہےاور یہاں کوئی ضرر ہے ہی نہیں اور پانی بھی اس کے پاس موجود ہے’’لہذا اس کے لیے پانی کا استعمال واجب ہے۔اگر مریض ایسا ہو کہ پانی کے استعمال سے اسے ہلاکت ‘’یا کسی عضو کے ناکارہ ہونے یا کسی موذی مرض کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے مریض کے لیے تیمم جائز ہے۔کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے: ( ولاتقتلوا انفسكم ان الله كان بكم رحيماً) (النساء:٤/٢٩) اور اپنے آپ کوہلاک نہ کرو’’بلاشبہ اللہ تم پر مہربان ہے۔” اگر مریض ایسا ہے کہ چل پھر نہیں سکتا اور اس کے پاس کوئی اور انسان بھی نہیں جو اسے پانی مہیا کرسکے تو اس کے لیے بھی تیمم جائز ہے۔جس شخص کے جسم پر زخم ہو یا پھوڑے پھنسیاں ہو ں یا کوئی عضو ٹوٹا ہوا ہویا مرض ایسا ہو کہ پانی کا استعمال نقصان دہ ہو اور وہ جنبی ہوجائےتو اس کے لیے سابقہ دلائل کی بنیاد پر تیمم کرنا جائز ہےاور اگر اس کے لیے جسم کے صحیح حسے کا دھونا ممکن ہو تو اسے دھونا واجب ہوگا اور باقی حصے کا تیمم کرلے۔اگر مریض کسی ایسی جگہ ہو جہاں پانی نہ ہو اور مٹی بھی نہ ہو اور نہ کوئی ایسا شخص موجود ہو مٹی یا پانی لاکردے سکے تو وہ حسب حال اسی طرح نماز پڑھ لے’’نماز کو مؤخر کرنا جائز نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے۔(فاتقواالله مااستطعتم) ( التغابن:٦٤/١٦) سو جہاں تک ہوسکے تم اللہ سے ڈرو۔ سلسل البول کا وہ مریض جو علاج معالجہ سے بھی صحیح نہ ہوسکتا ہوتو اسے وقت ہونے کے بعد ہر نماز کے لیے وضو کرنا چاہیےاور جسم کے اس حصے کو دھولینا چاہیے جہاں پیشاب لگا ہو۔اگر مشقت نہ ہو تو نماز کے لیے الگ پاک کپڑے استعمال کرے ورنہ اس کے لیے معافی ہےاور وہ انہی کپڑوں میں نماز پڑھ سکتا ہے۔اللہ تعالی کے ارشادات اور رسول اللہ ﷺ کے فرمودات سے اس سہولت کا استنباط ہوتا ہے۔سلسل البول کے مریض کو احتیاط کرنی چاہیے کہ پیشاب اس کے کپڑوں جسم اور نماز کی جگہ کو نہ لگے۔یاد رہے کہ تیمم بھی ہر اس چہز سے باطل ہوتا ہےجس سے وجو باطل ہوتا ہے ۔نیز پانی کے استعمال کی قدرت کے حاصل ہونے ‘’یا معدوم ہونے کی صورت میں پانی کے مل جانے سے بھی تیمم باطل ہوجائے گا۔واللہ اعلم۔ 1۔اگر پانی بہت ٹھنڈا ہو اور گرم کرنے کا انتظام نہ ہو اور ٹھنڈے پانی سے نہانے سے ہلاکت یا بیماری کا خوف ہوتو تیمم کرکے نماز پڑھی جاسکتی ہے۔عذر ختم ہونے پر غسل کرنا فرض ہوگا۔ 2۔حدیث میں (کز) کا لفظ ہے’’یعنی اسے کزاز کی بیماری لاحق ہوگئی۔یہ بیماری سردی کی شدت کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔ 3۔زخم کا ذکر کرنے سے اشارہ ملتا ہےکہ اس کی بیماری کا ایک سبب وہ زخم بھی تھا۔گویا اس کی وفات کی وجہ چدت کی سردی بھی تھی’’لیکن اس کے ساتھ ساتھ زخم پر ٹھنڈا پانی پڑنے کی وجہ سے اس کی بیماری نے اس قدر شدت اختیار کرلی کہ وہ فوت ہوگیا۔ 4۔فتوی دینے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے’’لہذا سائل کے حالات کو مدنظر رکھ کر مسئلہ بتانا چاہیے۔ 5۔اگر مسئلے میں کسی قسم کا اشکال ہوتو فتوی دینے سے پرہیز کرنا چاہیے اور اپنے سے بڑے عالم کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دینا چاہیے۔ 6۔غلطی پر تنبیہ کے لیے سخت الفاظ سے بھی زجروتوبیخ جائز ہےبشرطیکہ اس سے نامناسب ردعمل کا خطرہ نہ ہو۔ 7۔رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ بظاہر بددعا ہیں اللہ انھیں تباہ کرے لیکن آپﷺ کا مقصد بددعا کرنا نہیں بلکہ ناراضی کا اظہار تھا۔نبیﷺ نے اللہ تعالی سے دعا کی تھی جو قبول ہوئی کہ اگر کسی مسلمان کے حق میں بد دعا کے الفاظ زبان سے نکلیں تو وہ اس کے لیے رحمت اور مغفرت کا باعث بن جائیں۔(صحیح مسلم ‘’البروالصلة’’باب من لعنه الننبي ﷺ وسبه۔۔۔۔۔الخ’’حدیث:٢٦--) 8۔اسلامی شریعت کی بنیاد چونکہ آسانی اور سہولت پر ہے ‘’اس لیے اللہ تعالی نے عذر میں مبتلا لوگوں کے لیے عبادت ادا کرسکیں۔ارشاد باری تعالی ہے:(وما جعل عليكم في الدين من حرج ) الحج:٢٢/٧٨) اور ( اللہ تعالی نے )تم پر دین (کی کسی بات) میں تنگی نہیں کی۔”۔اور فرمایا:(يريد الله بكم اليسر ولايريد بكم العسر) (البقرة:٢/١٨٥) اللہ تمھارے حق میں آسانی چاہتا ہے’’سختی نہیں چاہتا اور فرمایا: ( فاتقو الله مااستطعتم ) (التغابن:١٦/٦٤) سو جہاں تک ہوسکے تم اللہ سے ڈرو۔ اور نبی ﷺ نے فرمایا :(اذا امرتكم بامر فاتوا منه ماستطعتم ) (صحیح البخاری ‘’الاعتصام بالکتاب والسنة’’باب الاقتدار بسنن رسول الله ﷺ حديث:٧٢٨٨’’وصحيح مسلم ‘’الحج’’باب فرض الحج مره في العمر’’حديث:١٣٣٧) جب میں تمھیں کوئی حکم دوں تو مقدور بھر اطاعت بجالاؤ۔ اسی طرح آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: دین اسلام ہے (صحیح البخاری ‘’للایمان ‘’باب الدین یسر ‘’حدیث :39) مریض کو پانی کے ساتھ طہارت حاصل کرنے کی استطاعت نہ ہو ‘’یعنی حدث اصغر وضو نہ ہونے کی صورت میں وضو اور حدث اکبر ناپاکی کی صورت کی صورت میں غسل کرنے سے عاجز ہو یا اس میں مرض میں اضافے کا خوف ہویا بیماری کے درست ہونے میں تاخیر کا اندیشہ ہوتووہ تیمم کرلے’’یعنی دونوں ہاتھوں کو پاک مٹی پر ایک بار مارے اور اپنی انگلیوں کے اندر کے حصے کو اپنے چہرے پر پھیرے اور ہتھیلیوں کو دونوں ہاتھوں پر پھیرے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔( وان كنتم مرضي او علي سفر او جاء احد منكم من الغائط او لمستم النساء فلم تجدوا مآء فتيمموا صعيداً طيباً فامسحوا بوجوهكم وايديكم منه) ( المائدة:٥/٦) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی بیت الخلاء سے ہوکر آیا ہویا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہوپھر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی لو اور اور اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح کرکے (تم تیمم )کرلو۔’’جو شخص پانی کے استعمال سے عاجز ہواس کا حکم وہی ہے’’جو اس شخص کا ہے جس کے پاس پانی ہی نہ ہوکیونکہ نبیﷺ کا ارشاد گرامی ہے: (انما الاعمال باالنيات وانما لكل امري ءمانوي) (صحیح البخاری’’بدء الوحی ‘’باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ﷺ حدیث:1) تمام اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کے لیے صرف وہی ہے جس کی وہ نیت کرے۔ مریض کے حالات مختلف ہوتے ہیں مثلاً: مرض معمولی ہو اور پانی کے استعمال سے ہلاکت،بیماری میں اضافے’’شفاء یابی میں تاخیر اور درد میں نمایاں اضافے کا کوئی خدشہ نہ ہو،جیسے سر درد یا داڑھ میں درد وغیرہ ہویا مریض کے لیے گرم پانی کا استعمال ممکن ہو اور اس سے اسے کوئی نقصان نہ پہنچتا ہوتو اس کے لیے تیمم جائز نہیں۔چونکہ تیمم کا جواز نفی ضرر کے لیے ہےاور یہاں کوئی ضرر ہے ہی نہیں اور پانی بھی اس کے پاس موجود ہے’’لہذا اس کے لیے پانی کا استعمال واجب ہے۔اگر مریض ایسا ہو کہ پانی کے استعمال سے اسے ہلاکت ‘’یا کسی عضو کے ناکارہ ہونے یا کسی موذی مرض کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے مریض کے لیے تیمم جائز ہے۔کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے: ( ولاتقتلوا انفسكم ان الله كان بكم رحيماً) (النساء:٤/٢٩) اور اپنے آپ کوہلاک نہ کرو’’بلاشبہ اللہ تم پر مہربان ہے۔” اگر مریض ایسا ہے کہ چل پھر نہیں سکتا اور اس کے پاس کوئی اور انسان بھی نہیں جو اسے پانی مہیا کرسکے تو اس کے لیے بھی تیمم جائز ہے۔جس شخص کے جسم پر زخم ہو یا پھوڑے پھنسیاں ہو ں یا کوئی عضو ٹوٹا ہوا ہویا مرض ایسا ہو کہ پانی کا استعمال نقصان دہ ہو اور وہ جنبی ہوجائےتو اس کے لیے سابقہ دلائل کی بنیاد پر تیمم کرنا جائز ہےاور اگر اس کے لیے جسم کے صحیح حسے کا دھونا ممکن ہو تو اسے دھونا واجب ہوگا اور باقی حصے کا تیمم کرلے۔اگر مریض کسی ایسی جگہ ہو جہاں پانی نہ ہو اور مٹی بھی نہ ہو اور نہ کوئی ایسا شخص موجود ہو مٹی یا پانی لاکردے سکے تو وہ حسب حال اسی طرح نماز پڑھ لے’’نماز کو مؤخر کرنا جائز نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے۔(فاتقواالله مااستطعتم) ( التغابن:٦٤/١٦) سو جہاں تک ہوسکے تم اللہ سے ڈرو۔ سلسل البول کا وہ مریض جو علاج معالجہ سے بھی صحیح نہ ہوسکتا ہوتو اسے وقت ہونے کے بعد ہر نماز کے لیے وضو کرنا چاہیےاور جسم کے اس حصے کو دھولینا چاہیے جہاں پیشاب لگا ہو۔اگر مشقت نہ ہو تو نماز کے لیے الگ پاک کپڑے استعمال کرے ورنہ اس کے لیے معافی ہےاور وہ انہی کپڑوں میں نماز پڑھ سکتا ہے۔اللہ تعالی کے ارشادات اور رسول اللہ ﷺ کے فرمودات سے اس سہولت کا استنباط ہوتا ہے۔سلسل البول کے مریض کو احتیاط کرنی چاہیے کہ پیشاب اس کے کپڑوں جسم اور نماز کی جگہ کو نہ لگے۔یاد رہے کہ تیمم بھی ہر اس چہز سے باطل ہوتا ہےجس سے وجو باطل ہوتا ہے ۔نیز پانی کے استعمال کی قدرت کے حاصل ہونے ‘’یا معدوم ہونے کی صورت میں پانی کے مل جانے سے بھی تیمم باطل ہوجائے گا۔واللہ اعلم۔