Book - حدیث 569

کِتَابُ التَّيَمَُ بَابُ مَا جَاءَ فِي التَّيَمُّمِ ضَرْبَةً وَاحِدَةً صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ ذَرٍّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلًا أَتَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقَالَ إِنِّي أَجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِدْ الْمَاءَ فَقَالَ عُمَرُ لَا تُصَلِّ فَقَالَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ أَمَا تَذْكُرُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ أَنَا وَأَنْتَ فِي سَرِيَّةٍ فَأَجْنَبْنَا فَلَمْ نَجِدْ الْمَاءَ فَأَمَّا أَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ وَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّكْتُ فِي التُّرَابِ فَصَلَّيْتُ فَلَمَّا أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ وَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيْهِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ نَفَخَ فِيهِمَا وَمَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ

ترجمہ Book - حدیث 569

کتاب: تیمم کے احکام ومسائل باب: تیمم کے لیے(زمین پر)ایک بار ہاتھ مارنا سیدنا عبدالرحمن بن ابزٰ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی سیدنا عمر بن خطاب ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اگر مجھے جنابت کی حالت پیش آجائے اور پانی نہ ملے( تو کیا کروں؟) سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: نماز نہ پڑھ( جب پانی ملے گا تو غسل کر کے قضا نماز پڑھنا۔) سیدنا عمار بن یاسر ؓ نے کہا: امیر المومنین ! کیا آپ کو یاد نہیں جب میں اور آپ دونوں ایک لشکر میں تھے۔ ہمیں غسل کی حاجت پیش آئی اور پانی نہ ملا( اس وقت بھی) آپ نے تو نماز نہیں پڑھی تھی، میں نے زمین پر لوٹ پوٹ ہو کر نماز پڑھ لی تھی۔ پھر جب میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو یہ واقعہ عرض کیا، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تجھے تو اتنا ہی کافی تھا۔‘‘ اور ( یہ کہہ کر) نبی ﷺ نے دونوں ہاتھ زمین پر مارے، پھر ان میں پھونک ماری اور چہرے اور دونوں ہتھیلیوں پر مسح کیا۔
تشریح : 1)اس سے تیمم کا طریقہ معلوم ہوا کہ پاک زمین پر ہاتھ مار کر ان پر پھونک مارلی جائے پھر وہ ہاتھ چہرے پر پھیر لیے جائیں اور پھر دونوں ہاتوں کو ایک دوسرے پر پھیر لیا جائے تو تیمم مکمل ہوجاتا ہے۔بازوؤں اور پاؤں پر ہاتھ پھیرنے کہ ضرورت نہیں نہ سر اور کانوں کا مسح کیا جائےگا۔ 2۔یہ تیمم جس طرح وضو کا قائم مقام ہوتا ہے اسی طرح غسل کا بھی قائم مقام ہوجاتا ہے۔غسل کی حاجت ہونے کی صورت میں پورے جسم پر مٹی پہنچانے کی ضرورت نہیں۔ 3۔جب کسی مسئلہ میں کوئی نص موجود نہ ہو تو اجتہاد کرنا جائز ہے۔ 4۔دو مجتہدین کے اجتہاد میں باہم اختلاف پایا جائے تو ہر مجتہد اپنے اپنے اجتہاد پر عمل کرسکتا ہے۔ 5۔مجتہد سے اجتہاد میں غلطی ہو سکتی ہے لیکن وہ اس ٖلطی کی وجہ سے گناہ گار نہیں ہوگا۔ 6۔رسول اللہﷺ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو وہ نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا جو انھوں نے تیمم کے بجائے زمین پر لوٹ پوٹ ہو کر ادا کی تھی۔اس سے معلوم ہوا کہ اجتہادی غلطی کی بناء پر کیا جانے والا عمل بعد میں صحیح مسئلہ معلوم ہونے پردوبارہ ادا کرنا ضروری نہیں البتہ آئندہ کے لیے صحیح مسئلہ پر عمل کرنا ضروری ہے۔ 7۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ یاد نہیں رہا اس لیے سائل کو نماز نہ پڑھنے کا حکم دیا۔اسا سے معلوم ہوا کہ بڑے سے بڑا فقیہ غلط فہمی کا شکار ہو کر کسی مسئلہ میں غلط موقف اختیار کر سکتا ہے کیونکہ وہ معصوم نہیں لہذا اختلافی مسائل میں زیادہ قوی موقف کو ترجیح دینا چاہیے خواہ اس کا قائل کوئی بھی عالم ہو۔کسی خاص عالم ہی کے قول کو اختیار کرنے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ 8۔تیمم میں زمین پر ہاتھ مار کر ان میں پھونک مارنے کا مقصد یہ ہے کہ زائد غبار اتر جائےکیونکہ مقصد صرف حکم کی تعمیل ہے جسم کو غبار آلود کرنا نہیں 1)اس سے تیمم کا طریقہ معلوم ہوا کہ پاک زمین پر ہاتھ مار کر ان پر پھونک مارلی جائے پھر وہ ہاتھ چہرے پر پھیر لیے جائیں اور پھر دونوں ہاتوں کو ایک دوسرے پر پھیر لیا جائے تو تیمم مکمل ہوجاتا ہے۔بازوؤں اور پاؤں پر ہاتھ پھیرنے کہ ضرورت نہیں نہ سر اور کانوں کا مسح کیا جائےگا۔ 2۔یہ تیمم جس طرح وضو کا قائم مقام ہوتا ہے اسی طرح غسل کا بھی قائم مقام ہوجاتا ہے۔غسل کی حاجت ہونے کی صورت میں پورے جسم پر مٹی پہنچانے کی ضرورت نہیں۔ 3۔جب کسی مسئلہ میں کوئی نص موجود نہ ہو تو اجتہاد کرنا جائز ہے۔ 4۔دو مجتہدین کے اجتہاد میں باہم اختلاف پایا جائے تو ہر مجتہد اپنے اپنے اجتہاد پر عمل کرسکتا ہے۔ 5۔مجتہد سے اجتہاد میں غلطی ہو سکتی ہے لیکن وہ اس ٖلطی کی وجہ سے گناہ گار نہیں ہوگا۔ 6۔رسول اللہﷺ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو وہ نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا جو انھوں نے تیمم کے بجائے زمین پر لوٹ پوٹ ہو کر ادا کی تھی۔اس سے معلوم ہوا کہ اجتہادی غلطی کی بناء پر کیا جانے والا عمل بعد میں صحیح مسئلہ معلوم ہونے پردوبارہ ادا کرنا ضروری نہیں البتہ آئندہ کے لیے صحیح مسئلہ پر عمل کرنا ضروری ہے۔ 7۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ یاد نہیں رہا اس لیے سائل کو نماز نہ پڑھنے کا حکم دیا۔اسا سے معلوم ہوا کہ بڑے سے بڑا فقیہ غلط فہمی کا شکار ہو کر کسی مسئلہ میں غلط موقف اختیار کر سکتا ہے کیونکہ وہ معصوم نہیں لہذا اختلافی مسائل میں زیادہ قوی موقف کو ترجیح دینا چاہیے خواہ اس کا قائل کوئی بھی عالم ہو۔کسی خاص عالم ہی کے قول کو اختیار کرنے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ 8۔تیمم میں زمین پر ہاتھ مار کر ان میں پھونک مارنے کا مقصد یہ ہے کہ زائد غبار اتر جائےکیونکہ مقصد صرف حکم کی تعمیل ہے جسم کو غبار آلود کرنا نہیں