Book - حدیث 558

كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمَسْحِ بِغَيْرِ تَوْقِيتٍ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ السُّلَمِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَلَوِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ اللَّخْمِيِّ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّهُ قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ مِنْ مِصْرَ فَقَالَ مُنْذُ كَمْ لَمْ تَنْزِعْ خُفَّيْكَ قَالَ مِنْ الْجُمُعَةِ إِلَى الْجُمُعَةِ قَالَ أَصَبْتَ السُّنَّةَ

ترجمہ Book - حدیث 558

کتاب: طہارت کے مسائل اور اس کی سنتیں باب: غیر معینہ مدت کے لیے مسح کرنا سیدنا عقبہ بن عامر جہنی ؓ سے روایت ہے کہ وہ مصر سے سیدنا عمر ؓ کے پاس( مدینہ منور) آئے۔ سیدنا عمر ؓ نے پوچھا: تم نے کتنی مدت سے موزے نہیں اتارے؟ انہوں نے کہا: جمعہ سے جمعہ تک (ہفتہ بھر۔) عمر ؓ نے فرمایا: تم نے سنت کے مطابق عمل کیا۔
تشریح : 1۔یہ اثر صحیح ہے۔امام ابن تیمیہ ؒ نے بھی اس کی توثیق کی ہےاور اپنے ایک سفر کا بھی ذکر کیا ہے جس میں ان کوبھی اس مسئلے پر بہ امر مجبوری عمل کرنا پڑا تھا تاہم یہ اثر سابقہ باب کی احادیث سے بظاہر متعارض نظر آتا ہےلیکن اہل علم مے ان کے درمیان اس طرح تطبیق دی ہے کہ جن احادیث میں موزوں پر مسح کی مدت مقرر کی گئی ہے ان پر عمل اس وقت ہوگا جب مسافر کے لیے تین دن رات کے بعد موزوں کو اتارنے میں مشقت و تکلیف نہ ہو البتہ سفر طویل ہواور قافلے کے چھوٹ جانے کا خطرہ ہو یا موزوں کو اتارنا مشقت و کلفت کا باعث ہوتو پھر موزوں پر مسح کرنا غیر معینہ مدت کے لیے ہوگا جیسا کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ نے کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (اصبت السنة) تم نے سنت نبوی کو پالیا کہہ کران کی تحسین فرمائی ۔والله اعلمّ 2۔حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ دمشق کی خوشخبری لے کرآئے تھے۔تفصیل کے لیے دیکھیے: (سلسلة الاحاديث الصحيه:٦/٢٣٩حديث:٢٦٢٢) ملحوظہ: سنن ابو داؤد کے فوائد میں حضرت ابی بن عمارہ کی حدیث کے تحت اس کے ضعف کی تو صراحت ہے لیکن حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ اس میں بیان نہیں ہوسکا۔جس کی رو سے بہ وقت ضرورت تین دن سے زیادہ مسح کرنے کا جواز ہے۔ 1۔یہ اثر صحیح ہے۔امام ابن تیمیہ ؒ نے بھی اس کی توثیق کی ہےاور اپنے ایک سفر کا بھی ذکر کیا ہے جس میں ان کوبھی اس مسئلے پر بہ امر مجبوری عمل کرنا پڑا تھا تاہم یہ اثر سابقہ باب کی احادیث سے بظاہر متعارض نظر آتا ہےلیکن اہل علم مے ان کے درمیان اس طرح تطبیق دی ہے کہ جن احادیث میں موزوں پر مسح کی مدت مقرر کی گئی ہے ان پر عمل اس وقت ہوگا جب مسافر کے لیے تین دن رات کے بعد موزوں کو اتارنے میں مشقت و تکلیف نہ ہو البتہ سفر طویل ہواور قافلے کے چھوٹ جانے کا خطرہ ہو یا موزوں کو اتارنا مشقت و کلفت کا باعث ہوتو پھر موزوں پر مسح کرنا غیر معینہ مدت کے لیے ہوگا جیسا کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ نے کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (اصبت السنة) تم نے سنت نبوی کو پالیا کہہ کران کی تحسین فرمائی ۔والله اعلمّ 2۔حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ دمشق کی خوشخبری لے کرآئے تھے۔تفصیل کے لیے دیکھیے: (سلسلة الاحاديث الصحيه:٦/٢٣٩حديث:٢٦٢٢) ملحوظہ: سنن ابو داؤد کے فوائد میں حضرت ابی بن عمارہ کی حدیث کے تحت اس کے ضعف کی تو صراحت ہے لیکن حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ اس میں بیان نہیں ہوسکا۔جس کی رو سے بہ وقت ضرورت تین دن سے زیادہ مسح کرنے کا جواز ہے۔