Book - حدیث 504

كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا بَابُ الْوُضُوءِ مِنَ الْمَذْيِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ عَلِيٍّ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمَذْيِ فَقَالَ فِيهِ الْوُضُوءُ وَفِي الْمَنِيِّ الْغُسْلُ

ترجمہ Book - حدیث 504

کتاب: طہارت کے مسائل اور اس کی سنتیں باب: مذی خارج ہونے سے وضوٹوٹ جاتا ہے سیدنا علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ سے مذی کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:’’اس سے وضو ہے اور منی سے غسل ہے۔‘‘
تشریح : 1۔مزی سے مراد وہ لیس دار پانی ہے جو بیوی سے دل لگی کے دوران میں صنفی خواہش کی وجہ سے عضو خاص سے ضارج ہوتا ہے۔اس کے خروج سے شہوت ختم نہیں ہوتی۔منی سے مراد وہ گاڑھا پانی ہے جو صنفی عمل کی تکمیل پر خارج ہوتا ہے اور اس سے انسان کی تخلیق ہوتی ہے۔ 2۔مذی سے غسل فرض نہیں ہوتا صرف وضو کرلینا کافی ہے۔وضو کا یہ فائدہ ہے کہ اس سے ذہن ان خیالات سے دوسری طرف منتقل ہوجاتا ہےاور انتشار کی کیفیت ختم ہوجاتی ہے۔ 3۔یہ مسئلہ پوچھنے کی ضرورت تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیش آئی تھی لیکن آپ نے رسول اللہﷺسے براہ راست نہیں پوچھا کیونکہ آپﷺ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا رشتہ ایسا تھا جس کی وجہ سے شرم وحیا یہ مسئلہ پوچھنے میں حائل تھی،اس لیے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کے واسطے سے دریافت کیا۔(صحیح البخاری العلم باب من استحیا فامرہ غیرہ بالسؤال حدیث :132) اس سے معلوم ہوا کہ بالواسطہ معلوم ہونے والی حدیث یا مسئلہ بھی اسی طرح قابل اعتماد اور واجب العمل ہے جس طرح براہ راست حاصل ہونے والا علم بشرطیکہ واسطہ ثقہ (قابل اعتماد)ہو۔ 1۔مزی سے مراد وہ لیس دار پانی ہے جو بیوی سے دل لگی کے دوران میں صنفی خواہش کی وجہ سے عضو خاص سے ضارج ہوتا ہے۔اس کے خروج سے شہوت ختم نہیں ہوتی۔منی سے مراد وہ گاڑھا پانی ہے جو صنفی عمل کی تکمیل پر خارج ہوتا ہے اور اس سے انسان کی تخلیق ہوتی ہے۔ 2۔مذی سے غسل فرض نہیں ہوتا صرف وضو کرلینا کافی ہے۔وضو کا یہ فائدہ ہے کہ اس سے ذہن ان خیالات سے دوسری طرف منتقل ہوجاتا ہےاور انتشار کی کیفیت ختم ہوجاتی ہے۔ 3۔یہ مسئلہ پوچھنے کی ضرورت تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیش آئی تھی لیکن آپ نے رسول اللہﷺسے براہ راست نہیں پوچھا کیونکہ آپﷺ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا رشتہ ایسا تھا جس کی وجہ سے شرم وحیا یہ مسئلہ پوچھنے میں حائل تھی،اس لیے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کے واسطے سے دریافت کیا۔(صحیح البخاری العلم باب من استحیا فامرہ غیرہ بالسؤال حدیث :132) اس سے معلوم ہوا کہ بالواسطہ معلوم ہونے والی حدیث یا مسئلہ بھی اسی طرح قابل اعتماد اور واجب العمل ہے جس طرح براہ راست حاصل ہونے والا علم بشرطیکہ واسطہ ثقہ (قابل اعتماد)ہو۔