Book - حدیث 483

كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا بَابُ الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ صحیح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ طَلْقٍ الْحَنَفِيَّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ مَسِّ الذَّكَرِ فَقَالَ لَيْسَ فِيهِ وُضُوءٌ إِنَّمَا هُوَ مِنْكَ

ترجمہ Book - حدیث 483

کتاب: طہارت کے مسائل اور اس کی سنتیں باب: مذکورہ صورت میں وضو نہ کرنے کی اجازت سیدنا قیس بن طلق حنفی اپنے والد( سیدنا طلق بن علی ؓ) سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا: میں نے سنا کہ کسی نے رسول اللہ ﷺ سے عضو خاص کو ہاتھ لگانے کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس سے وضو لازم نہیں آتا، وہ بھی تیرا ایک حصہ ہے۔‘‘
تشریح : 1۔(وهو منك) وہ تیرا ایک حصہ ہے یعنی جس طرح جسم کے کسی اور حصے کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا اسی طرح پیشاب کے عضو کو ہاتھ لگانے سے بھی نہیں ٹوٹتا۔ 2۔حضرت طلق رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث صحیح ہے۔لیکن یہ حکم منسوخ ہے۔حضرت طلق رضی اللہ عنہ ہجرت نبوی کے فوراًبعد مدینہ منورہ تشریف لائے تھے جب مسجد نبوی تعمیر ہورہی تھی۔امام ابن حزم ؒ نے اس کو منسوخ قراردیتے ہوئےفرمایاہے پہلی بات یہ ہے کہ اس حدیث میں مذکور حکم ہےاس صورت حال کے مطابق ہے جس پر عضو خاص کو چھونے سے وضو کا حکم آنے سے پہلے لوگ عمل پیرا تھےاور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک کسی چیز کے ناقص ہونے کا حکم نازل نہ ہو نبیﷺاس کی وجہ سے وضو کاحکم نہیں دے سکتے۔جب یہ بات ہے تو پھرجب نبیﷺ نے وضو کا حکم دےدیا تو پہلاحکم یقیناً منسوخ ہوگیا۔اور یقینی ناسخ حکم کو چھوڑکر یقینی منسوخ پر عمل کرنا جائز نہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ نبیﷺ کے اس فرمان سےکہ وہ تیرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے واضح طور پر ثابت ہوتا ہےکہ یہ ارشاد وضو کا حکم آنے سے پہلے فرمایاگیاتھاکیونکہ اگر بعد کی بات ہوتی تو آپﷺ یہ الفاظ نہ فرماتے بلکہ بیان فرماتے کہ (وضو کرنے کا) وہ حکم منسوخ ہوچکا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں اس وقت کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لیے عضو خاص کی حیثیت بھی دوسرے اعضاء کی سی تھی۔(المحلي:١/٢٣٩) بعض علماء نے دونوں روایات کے درمیان اس طرح بھی تطبیق دی ہے کہ جس روایت میں وضو نہ ٹوٹنے کاذکر ہے۔ تو اس کا مطلب کپڑے کے اوپر سے ہاتھ لگناہے اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا ۔اور جس روایت میں وضو ٹوٹنے کاذکرہے،اس سے مراد بغیر کپڑے کے ہاتھ لگنا ہے اس صورت میں وضو ٹوٹ جائےگا۔ 1۔(وهو منك) وہ تیرا ایک حصہ ہے یعنی جس طرح جسم کے کسی اور حصے کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا اسی طرح پیشاب کے عضو کو ہاتھ لگانے سے بھی نہیں ٹوٹتا۔ 2۔حضرت طلق رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث صحیح ہے۔لیکن یہ حکم منسوخ ہے۔حضرت طلق رضی اللہ عنہ ہجرت نبوی کے فوراًبعد مدینہ منورہ تشریف لائے تھے جب مسجد نبوی تعمیر ہورہی تھی۔امام ابن حزم ؒ نے اس کو منسوخ قراردیتے ہوئےفرمایاہے پہلی بات یہ ہے کہ اس حدیث میں مذکور حکم ہےاس صورت حال کے مطابق ہے جس پر عضو خاص کو چھونے سے وضو کا حکم آنے سے پہلے لوگ عمل پیرا تھےاور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک کسی چیز کے ناقص ہونے کا حکم نازل نہ ہو نبیﷺاس کی وجہ سے وضو کاحکم نہیں دے سکتے۔جب یہ بات ہے تو پھرجب نبیﷺ نے وضو کا حکم دےدیا تو پہلاحکم یقیناً منسوخ ہوگیا۔اور یقینی ناسخ حکم کو چھوڑکر یقینی منسوخ پر عمل کرنا جائز نہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ نبیﷺ کے اس فرمان سےکہ وہ تیرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے واضح طور پر ثابت ہوتا ہےکہ یہ ارشاد وضو کا حکم آنے سے پہلے فرمایاگیاتھاکیونکہ اگر بعد کی بات ہوتی تو آپﷺ یہ الفاظ نہ فرماتے بلکہ بیان فرماتے کہ (وضو کرنے کا) وہ حکم منسوخ ہوچکا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں اس وقت کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لیے عضو خاص کی حیثیت بھی دوسرے اعضاء کی سی تھی۔(المحلي:١/٢٣٩) بعض علماء نے دونوں روایات کے درمیان اس طرح بھی تطبیق دی ہے کہ جس روایت میں وضو نہ ٹوٹنے کاذکر ہے۔ تو اس کا مطلب کپڑے کے اوپر سے ہاتھ لگناہے اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا ۔اور جس روایت میں وضو ٹوٹنے کاذکرہے،اس سے مراد بغیر کپڑے کے ہاتھ لگنا ہے اس صورت میں وضو ٹوٹ جائےگا۔