Book - حدیث 48

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ اجْتِنَابِ الْبِدَعِ وَالْجَدَلِ حسن حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، ح وَحَدَّثَنَا حَوْثَرَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي غَالِبٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا ضَلَّ قَوْمٌ بَعْدَ هُدًى كَانُوا عَلَيْهِ إِلَّا أُوتُوا الْجَدَلَ» ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ {بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ} [الزخرف: 58]

ترجمہ Book - حدیث 48

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: بدعات اور غیر ضروری بحث و تکرار سے پرہیز کرنے کا بیان حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:‘‘کچھ لوگ ہدایت پر تھے، پھر اس کے بعد گمراہی اختیار کر لی تو انہیں جھگڑے ہی نصیب ہوئے۔’’ پھر نبی ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:‘‘(بل ھم قوم خصمون) بلکہ یہی لوگ جھگڑالو ہیں۔’’
تشریح : (1) حق کے مقابلے می باطل اور جھوٹی گفتگو کرنے کا نام جدل ہے۔ (2) اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کو اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ حق و باطل میں امتیاز فرما دیں، پھر کچھ لوگ ایمان لے آتے ہیں کچھ حق واضح ہو جانے کے باوجود باطل پر اڑے رہتے ہیں، پھر مومن کہلانے والوں میں سے بھی بعض پختہ اور کامل ایمان کے حامل ہوتے ہیں، بعض لوگ کمزور ایمان والے ہوتے ہیں، جن کے بارے میں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ غلط راستہ اختیار کر لیں گے، اس لیے ایمان والوں کو استقامت کی دعا کرتے رہنا چاہیے تاکہ ایمان پر خاتمہ ہو۔ (3) بعض اوقات پختہ ایمان والوں کی آئندہ نسل کمزور ایمان والی یا ایمان سے محروم بھی ہو سکتی ہے۔ یہ لوگ دنیوی مفاد کے لیے اپنے آپ کو مسلمان کہلانا بھی ضروری سمجھتے ہیں اور اسلام کی تعلیمات پر کماحقہ عمل کرنے کی ہمت بھی نہیں پاتے، چنانچہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنی غلط روی کے جواز کے لیے کسی آیت یا حدیث سے الٹا سیدھا استدلال کر کے اپنے ضمیر کو بھی مطمئن کر لیں اور ناقدین کو بھی خاموش کر دیں لیکن چونکہ ان کے دلائل کمزور ہوتے ہیں، لہذا بحث و مباحثہ کا ایک دروازہ کھل جاتا ہے اور ان کی نفس پرستی کی وجہ سے امت کا اتحاد پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ اختلافات کے خاتمے کا فطری اور درست طریقہ یہ ہے کہ بحث و مباحثہ اخلاص کے ساتھ حق کی تلاش کے جذبہ سے کیا جائے۔ جب ایک موقف صحیح ثابت ہو جائے تو اسے تسلیم کر لیا جائے۔ (1) حق کے مقابلے می باطل اور جھوٹی گفتگو کرنے کا نام جدل ہے۔ (2) اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کو اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ حق و باطل میں امتیاز فرما دیں، پھر کچھ لوگ ایمان لے آتے ہیں کچھ حق واضح ہو جانے کے باوجود باطل پر اڑے رہتے ہیں، پھر مومن کہلانے والوں میں سے بھی بعض پختہ اور کامل ایمان کے حامل ہوتے ہیں، بعض لوگ کمزور ایمان والے ہوتے ہیں، جن کے بارے میں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ غلط راستہ اختیار کر لیں گے، اس لیے ایمان والوں کو استقامت کی دعا کرتے رہنا چاہیے تاکہ ایمان پر خاتمہ ہو۔ (3) بعض اوقات پختہ ایمان والوں کی آئندہ نسل کمزور ایمان والی یا ایمان سے محروم بھی ہو سکتی ہے۔ یہ لوگ دنیوی مفاد کے لیے اپنے آپ کو مسلمان کہلانا بھی ضروری سمجھتے ہیں اور اسلام کی تعلیمات پر کماحقہ عمل کرنے کی ہمت بھی نہیں پاتے، چنانچہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنی غلط روی کے جواز کے لیے کسی آیت یا حدیث سے الٹا سیدھا استدلال کر کے اپنے ضمیر کو بھی مطمئن کر لیں اور ناقدین کو بھی خاموش کر دیں لیکن چونکہ ان کے دلائل کمزور ہوتے ہیں، لہذا بحث و مباحثہ کا ایک دروازہ کھل جاتا ہے اور ان کی نفس پرستی کی وجہ سے امت کا اتحاد پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ اختلافات کے خاتمے کا فطری اور درست طریقہ یہ ہے کہ بحث و مباحثہ اخلاص کے ساتھ حق کی تلاش کے جذبہ سے کیا جائے۔ جب ایک موقف صحیح ثابت ہو جائے تو اسے تسلیم کر لیا جائے۔