كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا بَابُ الْوُضُوءِ مِنَ النَّوْمِ حسن حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ عَنْ الْوَضِينِ بْنِ عَطَاءٍ عَنْ مَحْفُوظِ بْنِ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَائِذٍ الْأَزْدِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعَيْنُ وِكَاءُ السَّهِ فَمَنْ نَامَ فَلْيَتَوَضَّأْ
کتاب: طہارت کے مسائل اور اس کی سنتیں
باب: نیند کی وجہ سے وضو کرنا
سیدنا علی بن ابو طالب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’آنکھیں سرین کا بندھن ہیں، لہٰذا جو شخص سو جائے، اسے چاہیے کہ وضو کرے۔‘‘
تشریح :
1۔ تھیلی میں اشرفیاں وغیرہ ڈال کراس کامنہ جس دھاگے یا رسی وغیرہ سے باندھا جاتا ہے اسے وکاء کہتے تھے۔جب تک وکاء نہ کھولا جائے تھیلی میں سے کوئی چیز نہیں نکل سکتی۔گویا وہ تھیلی کے اندر کی چیزوں کا محافظ ہے۔اسی طرح بیداری کی حالت میں انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا وضو قائم ہےیا ہوا خارج ہونے کی وجہ سے ٹوٹ گیا ہے۔جب آنکھیں نیند سے بند ہوجائیں تو جسم پر کنٹرول نہیں رہتا گویا بندھن کھل جاتا ہےاور ہوا خارج ہونے کا احساس نہیں ہوتا،اسلیے نیند ہی کو وضو توڑنے والا قراردیا گیاہے۔
2۔نیند عام حالات میں وضو ٹوٹنے کا باعث بنتی ہے اس لیے نیند سے وضو کا حکم دیا گیا ہے۔اسی طرح شریعت میں بعض دوسرے احکام میں بھی ایک چیز کا باعث بننے والی شے کو اسی چیز والا حکم دے دیا جاتا ہےتاکہ انسان شکوک وشبہات کا شکار نہ رہے،مثلاً: ایک مژروب زیادہ مقدار میں پینے سے نشہ ہوتا ہےتو اس کی کم مقدار کو بھی حرام قراردیا گیا ہے۔تاکہ ایسا نہ ہو انسان یہ تصور کرے کہ فلان چراب کا ایک گلاس پینے سے نشہ نہیں ہوگا،پھر یہ سوچ کر ایک گلاس پی لے اور اسے نشہ ہوجائے،اس لیے ایک گلاس بھی حرام ہے اگرچہ نشہ نہ ہو۔
3۔شیخ البانی ؒ نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔
1۔ تھیلی میں اشرفیاں وغیرہ ڈال کراس کامنہ جس دھاگے یا رسی وغیرہ سے باندھا جاتا ہے اسے وکاء کہتے تھے۔جب تک وکاء نہ کھولا جائے تھیلی میں سے کوئی چیز نہیں نکل سکتی۔گویا وہ تھیلی کے اندر کی چیزوں کا محافظ ہے۔اسی طرح بیداری کی حالت میں انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا وضو قائم ہےیا ہوا خارج ہونے کی وجہ سے ٹوٹ گیا ہے۔جب آنکھیں نیند سے بند ہوجائیں تو جسم پر کنٹرول نہیں رہتا گویا بندھن کھل جاتا ہےاور ہوا خارج ہونے کا احساس نہیں ہوتا،اسلیے نیند ہی کو وضو توڑنے والا قراردیا گیاہے۔
2۔نیند عام حالات میں وضو ٹوٹنے کا باعث بنتی ہے اس لیے نیند سے وضو کا حکم دیا گیا ہے۔اسی طرح شریعت میں بعض دوسرے احکام میں بھی ایک چیز کا باعث بننے والی شے کو اسی چیز والا حکم دے دیا جاتا ہےتاکہ انسان شکوک وشبہات کا شکار نہ رہے،مثلاً: ایک مژروب زیادہ مقدار میں پینے سے نشہ ہوتا ہےتو اس کی کم مقدار کو بھی حرام قراردیا گیا ہے۔تاکہ ایسا نہ ہو انسان یہ تصور کرے کہ فلان چراب کا ایک گلاس پینے سے نشہ نہیں ہوگا،پھر یہ سوچ کر ایک گلاس پی لے اور اسے نشہ ہوجائے،اس لیے ایک گلاس بھی حرام ہے اگرچہ نشہ نہ ہو۔
3۔شیخ البانی ؒ نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔