Book - حدیث 47

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ اجْتِنَابِ الْبِدَعِ وَالْجَدَلِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ خِدَاشٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، ح وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ الْجَحْدَرِيُّ، وَيَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: تَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَةَ {هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ} [آل عمران: 7] إِلَى قَوْلِهِ، {وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ} فَقَالَ: «يَا عَائِشَةُ، إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِيهِ، فَهُمُ الَّذِينَ عَنَاهُمُ اللَّهُ، فَاحْذَرُوهُمْ»

ترجمہ Book - حدیث 47

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: بدعات اور غیر ضروری بحث و تکرار سے پرہیز کرنے کا بیان حضرت عائشہ ؓا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:( ﴿ ھُوَ الَّذِيْ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ۭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَ مَا يَذَّكَّرُ اِلَّا اُولُوا الْاَلْبَابِ ۝٧ ﴾ ‘‘وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل کی، اس کی کچھ آیات محکم (واضح) ہیں، جو اس کتاب کی اصل ہیں اور کچھ دوسری متشابہات (غیر واضح) ہیں، تو جن کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جو متشابہ( غیر واضح) ہیں، ان کا مقصد محض فتنے اور تاویل کی تلاش ہوتا ہے، حالانکہ ان کی اصل حقیقت سے اللہ کے سوا کوئی واقف نہیں اور علم میں پختگی رکھنے والے کہتے ہیں: ہمارا ان( متشابہات) پر ایمان ہے، یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقل مند ہی حاصل کرتے ہیں۔’’ پھر فرمایا:’’اے عائشہ!جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو ان (متشابہات) کے بارے میں بحث کرتے ہیں تو (جان لو کہ)یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے (اس آیت میں)مراد لیا ہے‘لہٰدا ان سے بچو-‘‘
تشریح : (1) قرآن مجید کی بعض آیات احکام پر مشتمل ہیں جو واضح ہیں، یا صحیح احادیث سے ان کی وضاحت ہو جاتی ہے اور ان پر عمل کرنے میں کوئی مشکل نہیں، اس طرح کی سب آیات محکم ہیں۔ بعض آیات کا تعلق عقائد سے ہے، مثلا توحید، رسالت، قیامت وغیرہ۔ قرآن مجید اور احادیث میں ان کی تفصیل موجود ہے اور ان کے دلائل بھی مذکور ہیں، یہ بھی محکم ہیں۔ اس کے برکعس بعض آیات ایسی بھی ہیں جن کا واضح مفہوم متعین نہیں کیا جا سکتا، مثلا حروف مقطعات۔ ان پر اس حد تک ایمان لانا کافی ہے کہ یہ بھی قرآن کا جز ہیں اور اللہ کا کلام ہیں جن کی تلاوت پر اسی طرح ثواب ملتا ہے جس طرح دوسری آیات کی تلاوت باعث ثواب ہے۔ اس سے زیادہ جستجو کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح وہ معاملات جن کا تعلق عالم غیب سے ہے ان پر بھی اسی انداز سے ایمان لانا کافی ہے کہ یہ اشیاء یقینا موجود ہیں، یا یہ حالات یقینا پیش آنے والے ہیں اور ان کی جو تفصیلات قرآن و حدیث میں مذکور ہیں، وہ ہمارے لیے کافی ہیں، اس سے زیادہ تحقیق و تفتیش کی ضرورت نہیں، مثلا فرشتے اللہ کی ایک اطاعت گزار مخلوق ہیں جو اپنے اپنے متعین دائرہ کار میں مصروف عمل ہیں۔ یا قیامت کے دن بندوں کے اعمال کا وزن ہو گا۔ اس پر ایمان لانا چاہیے۔ یہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں کہ اعمال تو غیر مادی اشیاء ہیں اور وزن مادی اشیاء کا ہوتا ہے ۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے جس طرح کے ترازو سے چاہے گا ان کو وزن کر لے گا۔ اسی طرح عذاب قبر کا تعلق بھی عالم غیب سے ہے۔ اس لیے یہ اعتراض بے جا ہے کہ ہمیں کافروں اور بدکاروں کی قبروں میں عذاب کے آثار نظر نہین آتے اور نیک لوگوں کی قبروں مین نعمت کے آثار نظر نہیں آتے۔ ان مسائل میں جتنی زیادہ بحچ و تمحیص کی جائے، لغزش کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں، لہذا ان پر مجمل ایمان کافی ہے۔ (2) متشابہات میں بلاضرورت بحث سے پرہیز ہی علمائے حق کا طریقہ ہے۔ (3) اس قسم کے معاملات کو زیر بحث لانے سے فتنے کے دروازے کھلتے ہیں، لہذا جو لوگ اس قسم کے مباحث چھیڑیں ان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے تاکہ وہ عوام کے ایمان کے لیے خطرہ نہ بنیں۔ (1) قرآن مجید کی بعض آیات احکام پر مشتمل ہیں جو واضح ہیں، یا صحیح احادیث سے ان کی وضاحت ہو جاتی ہے اور ان پر عمل کرنے میں کوئی مشکل نہیں، اس طرح کی سب آیات محکم ہیں۔ بعض آیات کا تعلق عقائد سے ہے، مثلا توحید، رسالت، قیامت وغیرہ۔ قرآن مجید اور احادیث میں ان کی تفصیل موجود ہے اور ان کے دلائل بھی مذکور ہیں، یہ بھی محکم ہیں۔ اس کے برکعس بعض آیات ایسی بھی ہیں جن کا واضح مفہوم متعین نہیں کیا جا سکتا، مثلا حروف مقطعات۔ ان پر اس حد تک ایمان لانا کافی ہے کہ یہ بھی قرآن کا جز ہیں اور اللہ کا کلام ہیں جن کی تلاوت پر اسی طرح ثواب ملتا ہے جس طرح دوسری آیات کی تلاوت باعث ثواب ہے۔ اس سے زیادہ جستجو کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح وہ معاملات جن کا تعلق عالم غیب سے ہے ان پر بھی اسی انداز سے ایمان لانا کافی ہے کہ یہ اشیاء یقینا موجود ہیں، یا یہ حالات یقینا پیش آنے والے ہیں اور ان کی جو تفصیلات قرآن و حدیث میں مذکور ہیں، وہ ہمارے لیے کافی ہیں، اس سے زیادہ تحقیق و تفتیش کی ضرورت نہیں، مثلا فرشتے اللہ کی ایک اطاعت گزار مخلوق ہیں جو اپنے اپنے متعین دائرہ کار میں مصروف عمل ہیں۔ یا قیامت کے دن بندوں کے اعمال کا وزن ہو گا۔ اس پر ایمان لانا چاہیے۔ یہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں کہ اعمال تو غیر مادی اشیاء ہیں اور وزن مادی اشیاء کا ہوتا ہے ۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے جس طرح کے ترازو سے چاہے گا ان کو وزن کر لے گا۔ اسی طرح عذاب قبر کا تعلق بھی عالم غیب سے ہے۔ اس لیے یہ اعتراض بے جا ہے کہ ہمیں کافروں اور بدکاروں کی قبروں میں عذاب کے آثار نظر نہین آتے اور نیک لوگوں کی قبروں مین نعمت کے آثار نظر نہیں آتے۔ ان مسائل میں جتنی زیادہ بحچ و تمحیص کی جائے، لغزش کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں، لہذا ان پر مجمل ایمان کافی ہے۔ (2) متشابہات میں بلاضرورت بحث سے پرہیز ہی علمائے حق کا طریقہ ہے۔ (3) اس قسم کے معاملات کو زیر بحث لانے سے فتنے کے دروازے کھلتے ہیں، لہذا جو لوگ اس قسم کے مباحث چھیڑیں ان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے تاکہ وہ عوام کے ایمان کے لیے خطرہ نہ بنیں۔