Book - حدیث 450

كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا بَابُ غَسْلِ الْعَرَاقِيبِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ أَبِي يَحْيَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمًا يَتَوَضَّئُونَ وَأَعْقَابُهُمْ تَلُوحُ فَقَالَ وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنْ النَّارِ أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ .

ترجمہ Book - حدیث 450

کتاب: طہارت کے مسائل اور اس کی سنتیں باب: ایڑیاں دھونا سیدنا عبداللہ بن عمر وؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو وضو کرتے دیکھا( آپ نے دیکھا کہ جو افراد وضو کر چکے تھے) ان کی ایڑیاں چمک رہی تھیں۔( جو پاؤں اچھی طرح نہ دھونے کی وجہ سے واضح طور پر خشک نظر آرہی تھیں۔) آپ ﷺ نے فرمایا: ایڑیوں کے لئے آگ کا عذاب ہے، وضو اچھی طرح مکمل کرو
تشریح : 1۔اس سے ظاہر ہے کہ وضو میں پیروں کو دھونا چاہیے مسح کافی نہیں ۔ مسح صرف اس وقت ہوسکتا ہے جب باوضو حالت میں موزے یا جرابیں پہنی ہوں یا پاؤں پر کوئی زخم ہو اور پانی سے نقصان کا اندیشہ ہو۔ 2۔وضو کے اعضاء کے ایسے حصے جہاں پانی نہ پہنچنے کا امکان ہوتا ہے انھیں توجہ سے دھونا چاہیے تاکہ خشک نہ رہ جائیں۔اسی طرح فرض غسل کے دوران میں جسم جسم کے ان حصوں تک توجہ سے پانی پہنچانا چاہیےجن کے خشک رہ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ 3۔کسی جماعت کے بعض افراد سے غلطی ہوجائے تو بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان کا نام لینے کے بجائے عام تنبیہ یا نصیحت کردی جائے البتہ بعض حالات میں انفرادی طور پر متنبہ کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ 4۔امام بخاریؒ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ وضو میں پاؤن دھونا ضروری ہےکیونکہ نبیﷺ نے جن صحابہ کو دیکھ کر یہ ڈانٹ پلائی تھی انھوں نے وضو کرتے ہوئے پاؤں پر مسح کیا تھااور انھین دھویا نہ تھا۔(صحيح البخاري الوضوء باب غسل الرجلين ولا يمسح علي القدمين حديث:١٦٣ و صحيح مسلم الطهارة باب وجوب غسل الرجلين بكمالها حديث:٢٤١) 5۔ایک صاحب ایمان آدمی بھی اپنے کسی گناہ کی وجہ سےجہنم کے عذاب کا شکار ہوسکتا ہےلیکن اس کی سزا دائمی نہیں ہوگی،البتہ کافرومشرک کا عذاب دائمی ہوگا۔ 6۔ ويل کا مطلب تباہی اور ہلاکت ہے۔ 1۔اس سے ظاہر ہے کہ وضو میں پیروں کو دھونا چاہیے مسح کافی نہیں ۔ مسح صرف اس وقت ہوسکتا ہے جب باوضو حالت میں موزے یا جرابیں پہنی ہوں یا پاؤں پر کوئی زخم ہو اور پانی سے نقصان کا اندیشہ ہو۔ 2۔وضو کے اعضاء کے ایسے حصے جہاں پانی نہ پہنچنے کا امکان ہوتا ہے انھیں توجہ سے دھونا چاہیے تاکہ خشک نہ رہ جائیں۔اسی طرح فرض غسل کے دوران میں جسم جسم کے ان حصوں تک توجہ سے پانی پہنچانا چاہیےجن کے خشک رہ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ 3۔کسی جماعت کے بعض افراد سے غلطی ہوجائے تو بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان کا نام لینے کے بجائے عام تنبیہ یا نصیحت کردی جائے البتہ بعض حالات میں انفرادی طور پر متنبہ کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ 4۔امام بخاریؒ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ وضو میں پاؤن دھونا ضروری ہےکیونکہ نبیﷺ نے جن صحابہ کو دیکھ کر یہ ڈانٹ پلائی تھی انھوں نے وضو کرتے ہوئے پاؤں پر مسح کیا تھااور انھین دھویا نہ تھا۔(صحيح البخاري الوضوء باب غسل الرجلين ولا يمسح علي القدمين حديث:١٦٣ و صحيح مسلم الطهارة باب وجوب غسل الرجلين بكمالها حديث:٢٤١) 5۔ایک صاحب ایمان آدمی بھی اپنے کسی گناہ کی وجہ سےجہنم کے عذاب کا شکار ہوسکتا ہےلیکن اس کی سزا دائمی نہیں ہوگی،البتہ کافرومشرک کا عذاب دائمی ہوگا۔ 6۔ ويل کا مطلب تباہی اور ہلاکت ہے۔