Book - حدیث 4268

كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ ذِكْرِ الْقَبْرِ وَالْبِلَى صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا شَبَابَةُ عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْمَيِّتَ يَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ فَيُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فِي قَبْرِهِ غَيْرَ فَزِعٍ وَلَا مَشْعُوفٍ ثُمَّ يُقَالُ لَهُ فِيمَ كُنْتَ فَيَقُولُ كُنْتُ فِي الْإِسْلَامِ فَيُقَالُ لَهُ مَا هَذَا الرَّجُلُ فَيَقُولُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَصَدَّقْنَاهُ فَيُقَالُ لَهُ هَلْ رَأَيْتَ اللَّهَ فَيَقُولُ مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَرَى اللَّهَ فَيُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَا وَقَاكَ اللَّهُ ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا فَيُقَالُ لَهُ هَذَا مَقْعَدُكَ وَيُقَالُ لَهُ عَلَى الْيَقِينِ كُنْتَ وَعَلَيْهِ مُتَّ وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ وَيُجْلَسُ الرَّجُلُ السُّوءُ فِي قَبْرِهِ فَزِعًا مَشْعُوفًا فَيُقَالُ لَهُ فِيمَ كُنْتَ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي فَيُقَالُ لَهُ مَا هَذَا الرَّجُلُ فَيَقُولُ سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ قَوْلًا فَقُلْتُهُ فَيُفْرَجُ لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَا صَرَفَ اللَّهُ عَنْكَ ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيُقَالُ لَهُ هَذَا مَقْعَدُكَ عَلَى الشَّكِّ كُنْتَ وَعَلَيْهِ مُتَّ وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى

ترجمہ Book - حدیث 4268

کتاب: زہد سے متعلق احکام و مسائل باب: قبر کا اٰور جسم کے گل سڑ جانے کا بیان حضرت ابو ہر یرہ ؓ سے روایت ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فر یا میت قبر میں پہنچ جا تی ہے ۔ تو نیک آ دمی کو قبر میں (اٹھا کر) بٹھا دیا جا تا ہے ۔ اسے کو ئی گھبراہٹ اور پر یشا نی نہیں ہو تی اسے کہا جا تا ہے تو کس چیز میں تھا وہ کہتا ہے ۔ اسلا م میں ۔ کہا جا تا ہے ۔یہ آ دمی کو ن ہے ۔ وہ کہتا ہے ۔حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہمارے پاس اللہ کے ہا ں سے واضح دلا ئل لے کر آ ئے تو ہم نے آ ﷺ کی تصد یق کی ۔ کہا جا تا ہے ۔ تو نے اللہ کو دیکھا ہے ۔ وہ کہتا ہے ۔ کو ئی اس قا بل نہیں کہ (دنیا میں ) اللہ کو دیکھ سکے ۔ تب اس کے لئے جہنم کی طرف ایک دریچہ کھو لا جا تا ہے ۔ وہ دیکھتا ہے ۔ کہ آگ آگ کو تو ڑ پھو ڑ رہی ہے ۔ اسے کہا جا تا ہے ۔ دیکھ اللہ نے تجھے کس چیز سے بچا لیا ہے ۔ پھر اس کے لئے جنت کی طرف دریچہ کھو لا جا تا ہے ۔ وہ اس کی آب و تا ب اور اس کی نعمتیں دیکھتا ہے ۔ اسے کہا جا تا ہے ۔ یہ تیرا ٹھکا نہ ہے ۔ اور اسے کہا جا تا ہے ۔ یقین پر تو تھا ۔اور اسی پر تیری وفات ہو ئی اور اسی پر تواٹھا یا جا ئے گا ۔ ان شاء اللہ برے آ دمی کو قبر میں بٹھا یا جا تا ہے ۔ تو وہ گھبرایا ہو ا اور بد حوا س ہو تا ہے ، اسے کہا جا تا ہے ۔ تو کس چیز میں تھا وہ کہتا ہے ۔ معلو م نہیں ۔ اسے کہا جا تا ہے ۔ (تیری طرف مبعوث ہو نے والا ) یہ آ دمی کو ن ہے ۔ وہ کہتا ہے ۔ مجھے معلو م نہیں ۔ میں نے لو گو ں کو ایک با ت کہتا سنا تھا وہ میں نے بھی کہہ دی ۔ تب اس کے لئے جنت کی طرف ایک دریچہ کھو لا جا تا ہے ۔ اسے اس کی آب و تا ب اور اس کی نعمتیں نظر آ تی ہیں اسے کہا جا تا ہے ۔ دیکھ اللہ نے تجھے کس چیز سے محروم کر دیا ۔ پھر اس کے لئے جہنم کی طرف دریچہ کھو لا جا تا ہے ۔ وہ اسے دیکھتا ہے ۔ کہ آ گ آگ کو تو ڑ پھو ڑ رہی ہے ۔ اور اسے کہا جا تا ہے ۔ یہ تیرا ٹھکا نہ ہے ۔ تو ( زندگی میں بھی ) شک پر تھا اور اسی حا لت میں مر گیا اور اسی پر تو اٹھا یا جا ئے گا ان شا ء اللہ ۔
تشریح : 1۔ قبر میں سوال جواب کا مرحلہ یقینی ہے۔ لیکن اس کا تعلق عالم غیب سے ہے جس کو زندہ انسان محسوس نہیں کرسکتے۔نبی اکرمﷺ کو اس کا احساس ہوجاتا تھا۔ کیونکہ اس قسم کے غیبی معاملات انبیاء کرام کو دکھا دیئے جاتے ہیں۔2۔جو شخص دنیا میں ایمان اور عمل صالح پر قائم تھا اس کو صحیح جواب کی توفیق ملتی ہے۔جس کے دل میں ایمان نہیں تھا وہ جواب نہیں دے سکتا۔3۔قبر میں ہر انسان کو جنت اور جہنم کا منظر دیکھا دیا جاتا ہے۔اور وہ اپنے اعمال کے مطابق جنت یا جہنم کے اثرات محسوس کرتا ہے۔ تاہم جنت یا جہنم میں دائمی طور پر داخلہ قیامت کے دن ہوگا۔4۔دفن کے بعد قب کے پاس کھڑے ہوکر میت کو مخاطب کرنا اور اسے قبر والوں کے جواب بتانا حدیث سے ثابت نہیں اس لئے اس کا کوئی فائدہ نہیں موت کے بعد میت کا اس د دنیا سے تعلق ختم ہوجاتا ہے۔ 1۔ قبر میں سوال جواب کا مرحلہ یقینی ہے۔ لیکن اس کا تعلق عالم غیب سے ہے جس کو زندہ انسان محسوس نہیں کرسکتے۔نبی اکرمﷺ کو اس کا احساس ہوجاتا تھا۔ کیونکہ اس قسم کے غیبی معاملات انبیاء کرام کو دکھا دیئے جاتے ہیں۔2۔جو شخص دنیا میں ایمان اور عمل صالح پر قائم تھا اس کو صحیح جواب کی توفیق ملتی ہے۔جس کے دل میں ایمان نہیں تھا وہ جواب نہیں دے سکتا۔3۔قبر میں ہر انسان کو جنت اور جہنم کا منظر دیکھا دیا جاتا ہے۔اور وہ اپنے اعمال کے مطابق جنت یا جہنم کے اثرات محسوس کرتا ہے۔ تاہم جنت یا جہنم میں دائمی طور پر داخلہ قیامت کے دن ہوگا۔4۔دفن کے بعد قب کے پاس کھڑے ہوکر میت کو مخاطب کرنا اور اسے قبر والوں کے جواب بتانا حدیث سے ثابت نہیں اس لئے اس کا کوئی فائدہ نہیں موت کے بعد میت کا اس د دنیا سے تعلق ختم ہوجاتا ہے۔