كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ ذِكْرِ التَّوْبَةِ صحیح قَالَ الزُّهْرِيُّ وَحَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ دَخَلَتْ امْرَأَةٌ النَّارَ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا فَلَا هِيَ أَطْعَمَتْهَا وَلَا هِيَ أَرْسَلَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتَّى مَاتَتْ قَالَ الزُّهْرِيُّ لِئَلَّا يَتَّكِلَ رَجُلٌ وَلَا يَيْئَسَ رَجُلٌ
کتاب: زہد سے متعلق احکام و مسائل
باب: توبہ کا بیان
امام زہر ی نے ؓ نے (دوسری حدیث بیا ن کر تے ہو ئے )فر یا اور مجھے حمید بن عبدالرحمن نے ابو ہریرہ سے حدیث سنا ئی کہ رسول اللہ ﷺ نے فر یا ایک عرت ایک بلی کی وجہ سے جہنم میں چلی گئی ۔ اس نے اسے با ندھ دیا ۔ تھا نہ اسے کچھ کھا نے کو دیا ۔ نہ اسے چھوڑ ا کہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی حتی کہ وہ (بھوک سے ) مر گئی ۔ ا م زہری نے فر مایا (میں نے دو حدیثیثں اس لئے سنائی ہیں ) تا کہ کو ئی (اپنی نیکیوں پر ) بھروسا نہ کر ے اور کو ئی (اللہ کی رحمت سے ) یو س نہ ہو ۔
تشریح :
1۔انسان کو اللہ کی رحمت کی اُمید کے ساتھ ساتھ اللہ کے عذاب سے خوف بھی رکھنا چاہیے۔2۔محدثین کی فقاہت صرف اختلافی فروعی مسائل تک محدود نہ تھی بلکہ ایمان اخلاق اور عملی زندگی کے مختلف پہلووں پر بھی ان کی گہری نظر تھی3۔اپنی لاش جلانے اور راکھ اڑانے کی وصیت کرنے کی وجہ موت کے وقت خشیت کی کیفیت کا غلبہ تھا۔اس لئے اس کی یہ غلطی بھی معاف ہوگئی۔کہ اس نے نامناسب وصیت کی۔4۔اللہ تعالیٰ اس کو زندہ کیے بغیر روح سے بھی سوال کرسکتا تھا لیکن اس کو اللہ نے اپنی قدرت او ر سطوت کا مشاہدہ کروادیا۔5۔قبر کےعذاب اور نعمت سے مراد وہ تمام حالات ہیں جو موت کے بعد قیامت تک پیش آیئں گے۔ یہ حالات ہر شخص کو پیش آتے ہیں۔ خواہ سے دفن کیاجائے یا اسے جنگلی جانور یا مچھلیاں کھا جایئں یا اس کو خاک سیاہ کرکے اس کے زریعے بکھیر دیئے جایئں یا اس کی راکھ کو کسی برتن میں محفوظ کرلیا جائے۔یا اس کی لاش محفوظ ہو۔جسے لوگ دیکھ رہے ہوں۔6۔عذاب قبر کاتعلق عالم غیب سے ہے۔اس لئے زندہ انسان اسکے ادراک کی طاقت نہیں رکھتے۔7۔کسی بھی جاندار چیز پر ظلم کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ خاص طور پر ایساظلم جس سے جاندار ایک ہی مرتبہ مرجانے کے بجائے تڑپ تڑپ کر اور سسک سسک کرمرے۔8۔پالتو جانوروں کی ضروریات کا خیال رکھنا فرض ہے۔ بلکہ ایسے جانور جوکسی کے پالتو نہیں ان پر رحم کرنے سے بھی اللہ کی رحمت حاصل ہوتی ہے۔جیسے کتے کو پانی پلانے کی وجہ سے گناہ گارانسان کی مغفرت ہوگئی تھی۔
1۔انسان کو اللہ کی رحمت کی اُمید کے ساتھ ساتھ اللہ کے عذاب سے خوف بھی رکھنا چاہیے۔2۔محدثین کی فقاہت صرف اختلافی فروعی مسائل تک محدود نہ تھی بلکہ ایمان اخلاق اور عملی زندگی کے مختلف پہلووں پر بھی ان کی گہری نظر تھی3۔اپنی لاش جلانے اور راکھ اڑانے کی وصیت کرنے کی وجہ موت کے وقت خشیت کی کیفیت کا غلبہ تھا۔اس لئے اس کی یہ غلطی بھی معاف ہوگئی۔کہ اس نے نامناسب وصیت کی۔4۔اللہ تعالیٰ اس کو زندہ کیے بغیر روح سے بھی سوال کرسکتا تھا لیکن اس کو اللہ نے اپنی قدرت او ر سطوت کا مشاہدہ کروادیا۔5۔قبر کےعذاب اور نعمت سے مراد وہ تمام حالات ہیں جو موت کے بعد قیامت تک پیش آیئں گے۔ یہ حالات ہر شخص کو پیش آتے ہیں۔ خواہ سے دفن کیاجائے یا اسے جنگلی جانور یا مچھلیاں کھا جایئں یا اس کو خاک سیاہ کرکے اس کے زریعے بکھیر دیئے جایئں یا اس کی راکھ کو کسی برتن میں محفوظ کرلیا جائے۔یا اس کی لاش محفوظ ہو۔جسے لوگ دیکھ رہے ہوں۔6۔عذاب قبر کاتعلق عالم غیب سے ہے۔اس لئے زندہ انسان اسکے ادراک کی طاقت نہیں رکھتے۔7۔کسی بھی جاندار چیز پر ظلم کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ خاص طور پر ایساظلم جس سے جاندار ایک ہی مرتبہ مرجانے کے بجائے تڑپ تڑپ کر اور سسک سسک کرمرے۔8۔پالتو جانوروں کی ضروریات کا خیال رکھنا فرض ہے۔ بلکہ ایسے جانور جوکسی کے پالتو نہیں ان پر رحم کرنے سے بھی اللہ کی رحمت حاصل ہوتی ہے۔جیسے کتے کو پانی پلانے کی وجہ سے گناہ گارانسان کی مغفرت ہوگئی تھی۔