Book - حدیث 4254

كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ ذِكْرِ التَّوْبَةِ صحیح حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبٍ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ سَمِعْتُ أَبِي حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ أَنَّهُ أَصَابَ مِنْ امْرَأَةٍ قُبْلَةً فَجَعَلَ يَسْأَلُ عَنْ كَفَّارَتِهَا فَلَمْ يَقُلْ لَهُ شَيْئًا فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَأَقِمْ الصَّلَاةَ طَرَفَيْ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنْ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ فَقَالَ الرَّجُلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِي هَذِهِ فَقَالَ هِيَ لِمَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ أُمَّتِي

ترجمہ Book - حدیث 4254

کتاب: زہد سے متعلق احکام و مسائل باب: توبہ کا بیان حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روا یت ہے ۔ایک آدمی نبی ﷺ کی خد مت میں حا ضر ہو ا اور بتا یا کہ اس نے ایک ( اجنبی ) عورت کا بو سہ لے لیا ہے ۔ اور نبی ﷺ سے اس گنا ہ کا کفا رہ دریا فت کر نے لگا ۔ رسو ل اللہ ﷺ نے اسے کو ئی جو اب نہ دیا ۔ پھر اللہ تعالی نے یہ آیت نا زل فر دی ۔ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ دن کے کناروں میں اور رات کی گھڑیوں میں نماز قا ئم کیجیے ۔ بے شک نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں یہ نصحیت ہے نصحیت قبول کر نے والوں کے لئے ۔اس آدمی نے کہا اللہ کے رسول کیا یہ (رعایت ) میرے (ہی لئے ہے آپ نے فر مایا یہ میری امت کے ہر اس شخص کے لئے ہے جو اس پر عمل کر ے
تشریح : 1۔بعض گناہ دوسرے گناہوں سے چھوٹے بڑے ہوتے ہیں۔جتنا بڑا گناہ ہوگا اس کی معافی کے لئے اتنی بڑی نیکی کی ضرورت ہے۔2۔وہ شخص اپنے گناہ پرنادم تھا۔ اور اس کی معافی کے لئے ہر کفارہ ادا کرنے کوتیارتھا۔ اس وجہ سے وہ گناہ نماز کی برکت سے معاف ہوگیا۔ جو شخص نادم نہ ہو۔گناہ کو معمولی سمجھے اس کا چھوٹا گناہ بھی بڑا ہوجاتاہے۔3۔آیت کے شان نزول سے اس کا مطلب اور مفہوم واضح ہوجاتا ہے لیکن آیت میں مذکور حکم امت کے سب افراد کےلئے ہوتا ہے۔4۔گناہ ہوجائے تو فورا کوئی نیکی کرنی چاہیے مثلا نفل نماز پڑھ کر گناہ کی معافی کی دعا کرے۔یا صدقہ خیرات کرے یا کوئی او ر نیکی کرے جو اس گناہ کی معافی سے مناسبت رکھتی ہو۔ مثلا زکر ازکار تلاوت اور نفلی روزہ وغیرہ۔ 1۔بعض گناہ دوسرے گناہوں سے چھوٹے بڑے ہوتے ہیں۔جتنا بڑا گناہ ہوگا اس کی معافی کے لئے اتنی بڑی نیکی کی ضرورت ہے۔2۔وہ شخص اپنے گناہ پرنادم تھا۔ اور اس کی معافی کے لئے ہر کفارہ ادا کرنے کوتیارتھا۔ اس وجہ سے وہ گناہ نماز کی برکت سے معاف ہوگیا۔ جو شخص نادم نہ ہو۔گناہ کو معمولی سمجھے اس کا چھوٹا گناہ بھی بڑا ہوجاتاہے۔3۔آیت کے شان نزول سے اس کا مطلب اور مفہوم واضح ہوجاتا ہے لیکن آیت میں مذکور حکم امت کے سب افراد کےلئے ہوتا ہے۔4۔گناہ ہوجائے تو فورا کوئی نیکی کرنی چاہیے مثلا نفل نماز پڑھ کر گناہ کی معافی کی دعا کرے۔یا صدقہ خیرات کرے یا کوئی او ر نیکی کرے جو اس گناہ کی معافی سے مناسبت رکھتی ہو۔ مثلا زکر ازکار تلاوت اور نفلی روزہ وغیرہ۔