Book - حدیث 4245

كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ ذِكْرِ الذُّنُوبِ صحیح حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ الرَّمْلِيُّ حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ بْنِ خَدِيجٍ الْمَعَافِرِيُّ عَنْ أَرْطَاةَ بْنِ الْمُنْذِرِ عَنْ أَبِي عَامِرٍ الْأَلْهَانِيِّ عَنْ ثَوْبَانَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لَأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِي يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالِ جِبَالِ تِهَامَةَ بِيضًا فَيَجْعَلُهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَبَاءً مَنْثُورًا قَالَ ثَوْبَانُ يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا جَلِّهِمْ لَنَا أَنْ لَا نَكُونَ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَا نَعْلَمُ قَالَ أَمَا إِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ وَمِنْ جِلْدَتِكُمْ وَيَأْخُذُونَ مِنْ اللَّيْلِ كَمَا تَأْخُذُونَ وَلَكِنَّهُمْ أَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللَّهِ انْتَهَكُوهَا

ترجمہ Book - حدیث 4245

کتاب: زہد سے متعلق احکام و مسائل باب: گناہوں کا بیان حضرت ثو با ن ؓ سے روا یت ہے ۔ نبی ﷺ نے فر یا ۔ میں اپنی امت کے ان افراد کو ضرور پہچا ن لو ں گا ۔جو قیا مت کے دن تہامہ کے پہا ڑوں جیسی سفید (روشن ) نیکیا ں لے کر حا ضر ہو ں گے تو اللہ عز وجل ان (نیکیوں کو ) بکھرے ہو ئے غبا ر میں تبد یل کر دے گا۔ حضرتے ثوبا ن نے عر ض کیا اللہ کے رسول ان کی صفا ت بیان فر دیجیے ۔ان(کی خرابیوں) کو ہمارے لئے واضح کر دیجیے۔ کہ ایسا نہ ہو کہ ہم ان میں شا مل ہو جا ئیں ۔اور ہمیں پتہ بھی نہ چلے آ پ نے فر یا ۔ وہ تمھا رے بھا ئی ہیں اور تمھا ری جنس سے ہیں اور را ت کی عبا دت کا حصہ حا صل کر تے ہیں جس طرح تم کر تے ہو ۔ لیکن وہ ایسے لو گ ہیں کہ انھیں جب تنہا ئیہ میں اللہ کے حرا م کر دہ گناہوں کا مو قع ملتا ہے ۔ تو ان کا ارتکا ب کر لیتے ہیں ۔
تشریح : 1۔بہت سے گناہ نیکیوں کو ضائع کردیتے ہیں۔2۔لوگوں کے سامنے نیک بنے رہنا اور تنہائی میں گناہ کاارتکاب بے تکلف کرلینا یہ بھی ایک قسم کی منافقت ہے۔جس کی وجہ سے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔3۔تہجد پڑھنانیکی ہے۔لیکن اس سے زیادہ ضروری تنہائی میں تقویٰ پر قائم رہنا ہے۔4۔اصل تقویٰ یہی ہے۔ کہ انسان اس وقت بھی گناہ سے باز رہے جب اسے دیکھنے والا کوئی نہ ہو۔5۔نیکیوں کو غبار میں تبدیل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو قبول نہیں فرمائے گا۔اس لئے وہ بے وزن ہوجایئں گی اگرچہ دیکھنے میں وہ پہاڑوں جیسی عظیم اور سفید ہوں ۔ 1۔بہت سے گناہ نیکیوں کو ضائع کردیتے ہیں۔2۔لوگوں کے سامنے نیک بنے رہنا اور تنہائی میں گناہ کاارتکاب بے تکلف کرلینا یہ بھی ایک قسم کی منافقت ہے۔جس کی وجہ سے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔3۔تہجد پڑھنانیکی ہے۔لیکن اس سے زیادہ ضروری تنہائی میں تقویٰ پر قائم رہنا ہے۔4۔اصل تقویٰ یہی ہے۔ کہ انسان اس وقت بھی گناہ سے باز رہے جب اسے دیکھنے والا کوئی نہ ہو۔5۔نیکیوں کو غبار میں تبدیل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو قبول نہیں فرمائے گا۔اس لئے وہ بے وزن ہوجایئں گی اگرچہ دیکھنے میں وہ پہاڑوں جیسی عظیم اور سفید ہوں ۔