Book - حدیث 4239

كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ الْمُدَاوَمَةِ عَلَى الْعَمَلِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ حَنْظَلَةَ الْكَاتِبِ التَّمِيمِيِّ الْأُسَيِّدِيِّ قَالَ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْنَا الْجَنَّةَ وَالنَّارَ حَتَّى كَأَنَّا رَأْيَ الْعَيْنِ فَقُمْتُ إِلَى أَهْلِي وَوَلَدِي فَضَحِكْتُ وَلَعِبْتُ قَالَ فَذَكَرْتُ الَّذِي كُنَّا فِيهِ فَخَرَجْتُ فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ فَقُلْتُ نَافَقْتُ نَافَقْتُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّا لَنَفْعَلُهُ فَذَهَبَ حَنْظَلَةُ فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا حَنْظَلَةُ لَوْ كُنْتُمْ كَمَا تَكُونُونَ عِنْدِي لَصَافَحَتْكُمْ الْمَلَائِكَةُ عَلَى فُرُشِكُمْ أَوْ عَلَى طُرُقِكُمْ يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً

ترجمہ Book - حدیث 4239

کتاب: زہد سے متعلق احکام و مسائل باب: نیک عمل پردوام اورہمیشگی اختیار کرنا حضرت حنظللہ ( بن ربیع بن صیفی ) تمیمی اسیدی ؓ کا تب وحی سے روا یت ہے انھو ں نے فر یا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خد مت میں حا ضر تھے کہ ہم نے جنت اور جہنم کا ذ کر کیا ۔ (تو دل کی یہ کفایت ہو ئی ) گو یا ہم ( جنت اور جہنم کو ) آنکھو ں سے دیکھ رہے ہیں پھر میں اٹھ کر بیو ی اور بچو ں کے پا س (گھر ) چلا گیا ۔ میں ان کے سا تھ ہنسا کھیلا ۔( حنظللہ نے ) کہا پھر مجھے وہ کفیت یا د آئی جس میں ہم ( رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں ) تھے چنا نچہ میں (گبھرا کر ) با ہر نکلا تو میری ملاقا ت حضرت ابو بکر سے ہو گئی میں نے کہا میں منا فق ہو گیا میں منا فق ہو گیا ۔ حضرت ابو بکر نے (تفصیل سن کر ) فر یا یہ کیفیت تو ہ ری بھی ہے حضرت حنظللہ نے نبی ﷺ کی خد مت میں حا ضر ہو کر یہ کیفیت عرض کی تو آپ ﷺ نے فر یا حنظللہ اگر تم (ہمیشہ ) اسی کیفیت میںرہو جس میں تم میرے پا س ہو تے ہو تو فرشتے تمھارے بستروں پر یا (فر یا ) راستوں میں تم سے مصا فحہ کر یں ۔ (لیکن ) حنظللہ وقت وقت کی با ت ہے ۔
تشریح : 1۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اپنے ایمان اور قلبی کیفیات کے بارے میں بہت محتاط رہتے تھے اور ڈرتے تھے کہ کسی نادانستہ غلطی کی وجہ سے ان کے درجات میں کمی نہ آجائے۔2۔دل کی کیفیات تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔3۔بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنا اور شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے دنیا کے معاملات میں مثغول ہونا شرعا مطلوب ہے۔4۔انسان کو فرشتوں سے (بعض لہاظ سے) افضل قراردیا گیا ہے۔تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان ایسے حالات میں گھرا ہوا ہے۔جو اسے اللہ سے غافل کرتے ہیں۔پھر بھی وہ اللہ کو یاد کرتا اور اس کی عبادت کرتا ہے۔ 1۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اپنے ایمان اور قلبی کیفیات کے بارے میں بہت محتاط رہتے تھے اور ڈرتے تھے کہ کسی نادانستہ غلطی کی وجہ سے ان کے درجات میں کمی نہ آجائے۔2۔دل کی کیفیات تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔3۔بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنا اور شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے دنیا کے معاملات میں مثغول ہونا شرعا مطلوب ہے۔4۔انسان کو فرشتوں سے (بعض لہاظ سے) افضل قراردیا گیا ہے۔تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان ایسے حالات میں گھرا ہوا ہے۔جو اسے اللہ سے غافل کرتے ہیں۔پھر بھی وہ اللہ کو یاد کرتا اور اس کی عبادت کرتا ہے۔