كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ الثَّنَاءِ الْحَسَنِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ كُلْثُومٍ الْخُزَاعِيِّ قَالَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ لِي أَنْ أَعْلَمَ إِذَا أَحْسَنْتُ أَنِّي قَدْ أَحْسَنْتُ وَإِذَا أَسَأْتُ أَنِّي قَدْ أَسَأْتُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَالَ جِيرَانُكَ قَدْ أَحْسَنْتَ فَقَدْ أَحْسَنْتَ وَإِذَا قَالُوا إِنَّكَ قَدْ أَسَأْتَ فَقَدْ أَسَأْتَ
کتاب: زہد سے متعلق احکام و مسائل
باب: اچھی رائے عامہ
حضرت کلثو م ( بن علقمہ ) خزا عی ؓ سے روا یت ہے انھو ں نے فر یا نبی ﷺ کی خد مت میں آد می نے حا ضر ہو کر عر ض کیا اے اللہ کے رسول جب میں نیکی کر وں تو مجھے کیسے معلو م ہو سکتا ہے ۔ کہ میں نے اچھا کام کیا ہے ۔ اور جب میں گنا ہ کر بیٹھو ں تو رسو ل اللہ ﷺ نے فر یا جب تیرے ہمسا ئے کہیں تو نے اچھا کا م کیا ہے تو (یقین کر لے کہ ) تو نے اچھا کا م کیا ہے ۔ اور جب وہ کہیں تو نے برا کا م کیا ہے ۔ تو پھر تو نے برا ہی کا م کیا ہے ۔ حد یث نمبر 4223 ۔حضرت عبداللہ بن مسعود سے روا یت ہے ایک آ دمی نے رسول اللہ ﷺ سے پو چھا مجھے کیسے معلو م ہو گا ۔ جب میں نیکی کر وں یا برا ئی کر وں (کہ میں نے نیکی کی یا برا ئی کی ہے ) نبی ﷺ نے فر یا جب تو سنے کے تیرے ہمسا ئے کہیں تو نے اچھا کا م کیا ہے تو تو نے اچھا کا م ہی کیا ہے اور جب تو انھیں سنے کہ وہ کہیں ۔ تو نے برا کام کیا ہے تو تو نے برا کا مہی کیا ہے
تشریح :
1۔عام نیکیاں اور برائیاں ایسی ہیں کہ عام مسلمان انھیں اس حیثیت سے پہچانتے ہیں خواہ عملی طور پر وہ نیکیوں میں سست اور برائیوں کے عادی ہوں۔
2۔اخلاقی خوبیاں اور خامیاں سب سے زیادہ ہمسائیوں کو معلوم ہوتی ہیں۔ جب کسی شخص کو معلوم ہو کہ ہمسائے اسے اچھا نہیں سمجھتے تو اسے چاہیے کہ اپنی اسلاح کی کوشش کرے۔
3۔آجکل علم کی کمی کی وجہ سے اور غلط رسم ورواج زیادہ ہوجانے کی وجہ سے بعض اچھے کام چھوٹ گئے ہیں جب اس پر عمل کیا جائے تو عوام تنقید کرتے ہیں اور بعض غلط کام ایسے مشہور ہوگئے ہیں کہ لوگ انھیں شرعی حکم سمجھ کر عمل کرتے ہیں۔جب ایسی بدعت سے اجتناب کیا جائے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ سنت کا انکار کیا جارہا ہے۔ایسے مسائل میں عوام کی رائے کو اہمیت حاصل نہیں بلکہ ایسے علامء سے دریافت کرنا چاہیے جو صحیح اور ضعیف احادیث میں امتیاز کرسکتے ہیں اور قرآن وحدیث کے نصوص سے مسائل سمجھ سکتے ہیں۔ محض چٹ پٹی تقریریں کرنے والے واعظوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔
1۔عام نیکیاں اور برائیاں ایسی ہیں کہ عام مسلمان انھیں اس حیثیت سے پہچانتے ہیں خواہ عملی طور پر وہ نیکیوں میں سست اور برائیوں کے عادی ہوں۔
2۔اخلاقی خوبیاں اور خامیاں سب سے زیادہ ہمسائیوں کو معلوم ہوتی ہیں۔ جب کسی شخص کو معلوم ہو کہ ہمسائے اسے اچھا نہیں سمجھتے تو اسے چاہیے کہ اپنی اسلاح کی کوشش کرے۔
3۔آجکل علم کی کمی کی وجہ سے اور غلط رسم ورواج زیادہ ہوجانے کی وجہ سے بعض اچھے کام چھوٹ گئے ہیں جب اس پر عمل کیا جائے تو عوام تنقید کرتے ہیں اور بعض غلط کام ایسے مشہور ہوگئے ہیں کہ لوگ انھیں شرعی حکم سمجھ کر عمل کرتے ہیں۔جب ایسی بدعت سے اجتناب کیا جائے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ سنت کا انکار کیا جارہا ہے۔ایسے مسائل میں عوام کی رائے کو اہمیت حاصل نہیں بلکہ ایسے علامء سے دریافت کرنا چاہیے جو صحیح اور ضعیف احادیث میں امتیاز کرسکتے ہیں اور قرآن وحدیث کے نصوص سے مسائل سمجھ سکتے ہیں۔ محض چٹ پٹی تقریریں کرنے والے واعظوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔