Book - حدیث 42

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ اتِّبَاعِ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَشِيرِ بْنِ ذَكْوَانَ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي الْمُطَاعِ قَالَ سَمِعْتُ الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ يَقُولُ قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً وَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ وَذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَعَظْتَنَا مَوْعِظَةَ مُوَدِّعٍ فَاعْهَدْ إِلَيْنَا بِعَهْدٍ فَقَالَ عَلَيْكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا وَسَتَرَوْنَ مِنْ بَعْدِي اخْتِلَافًا شَدِيدًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَالْأُمُورَ الْمُحْدَثَاتِ فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ

ترجمہ Book - حدیث 42

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کی پیروی کرنا حضرت عرباض بن ساریہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دن رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں میں کھڑے ہوئے اور ایک متاثر کن وعظ فرمایا، جس سے دل( اللہ کی ناراضی اور عذاب سے) خوف زدہ ہوگئے اور آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔ عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ہمیں ایسے نصیحت فرمائی ہے ،آپ ہم سے کوئی عہدو پیمان لے لیجئے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:‘‘اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور حکم سن کر تعمیل کرو اگرچہ( تمہارا حاکم) کوئی حبشی غلام ہو۔ اور تم میرے بعد سخت اختلاف دیکھو گے، تو میری سنت کو اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو اختیار کرنا، اسے ڈاڑھوں سے سے پکڑ کر رکھنا، (اس پر مضبوطی سے قائم رہنا) اور نئے نئے کاموں سے پرہیز کرنا، کیوں کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔’’
تشریح : (1) رکصت کے وقت نصیحت اور وصیت کرنا مسنون ہے۔ (2) تقویٰ کی اہمیت۔ تقویٰ کا مطلب ہے اللہ کی ناراضی سے بچنے کے لیے برے کاموں سے پرہیز کیا جائے، تاکہ جہنم کے عذاب سے محفوظ رہیں۔ (3) شرعی حاکم کی فرماں برداری، الا یہ کہ وہ کوئی ایسا حکم دے جو واضح طور پر خلاف شریعت ہو۔ (4) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امت میں بہت سے اختلافات ہوں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ مسلمانوں میں مذہبی اور سیاسی بنیادوں پر بہت سے اختلافات پیدا ہو گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلے سے اس کی خبر دے دینا آپ کی نبوت کی دلیل ہے۔ (5) اختلافات میں فیصلہ کن قرآن و حدیث ہے۔ سنت نبوی کی یہ اہمیت قرآن مجید سے بھی ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَإِن تَنـزَعتُم فى شَىءٍ فَرُ‌دّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّ‌سولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ‌ ذلِكَ خَيرٌ‌ وَأَحسَنُ تَأويلًا) (النساء:59) اگر کسی معاملے میں تمہارا اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لے جاؤ اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہ طرز عمل بہتر ہے اور اس کا انجام اچھا ہے۔ (6) خلفائے راشدین کی زندگی بھی قرآن و حدیث پر عمل کی روشن مثال ہے۔ انہوں نے اسلام کی تعلیمات براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کی تھیں، اس لیے ان کا فہم دین قابل اعتماد ہے۔ خصوصا اس لیے بھی کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حضرات کو ہدایت یافتہ فرمایا ہے۔ (7) خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام قرآن و سنت پر عمل کرتے تھے اور بدعات سے اجتناب کرتے تھے، اس لیے بدعات سے پرہیز ضروری ہے۔ (8) بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کر کے بعض بدعات کو اچھی اور جائز قرار دینا درست نہیں، البتہ وہ ایجادات جن کا تعلق دین سے نہیں، جائزدنیوی امور سے ہے، انہیں شرعا بدعت نہیں کہا جاتا، اس لیے ان کا استعمال درست ہے۔ (1) رکصت کے وقت نصیحت اور وصیت کرنا مسنون ہے۔ (2) تقویٰ کی اہمیت۔ تقویٰ کا مطلب ہے اللہ کی ناراضی سے بچنے کے لیے برے کاموں سے پرہیز کیا جائے، تاکہ جہنم کے عذاب سے محفوظ رہیں۔ (3) شرعی حاکم کی فرماں برداری، الا یہ کہ وہ کوئی ایسا حکم دے جو واضح طور پر خلاف شریعت ہو۔ (4) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امت میں بہت سے اختلافات ہوں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ مسلمانوں میں مذہبی اور سیاسی بنیادوں پر بہت سے اختلافات پیدا ہو گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلے سے اس کی خبر دے دینا آپ کی نبوت کی دلیل ہے۔ (5) اختلافات میں فیصلہ کن قرآن و حدیث ہے۔ سنت نبوی کی یہ اہمیت قرآن مجید سے بھی ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَإِن تَنـزَعتُم فى شَىءٍ فَرُ‌دّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّ‌سولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ‌ ذلِكَ خَيرٌ‌ وَأَحسَنُ تَأويلًا) (النساء:59) اگر کسی معاملے میں تمہارا اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لے جاؤ اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہ طرز عمل بہتر ہے اور اس کا انجام اچھا ہے۔ (6) خلفائے راشدین کی زندگی بھی قرآن و حدیث پر عمل کی روشن مثال ہے۔ انہوں نے اسلام کی تعلیمات براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کی تھیں، اس لیے ان کا فہم دین قابل اعتماد ہے۔ خصوصا اس لیے بھی کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حضرات کو ہدایت یافتہ فرمایا ہے۔ (7) خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام قرآن و سنت پر عمل کرتے تھے اور بدعات سے اجتناب کرتے تھے، اس لیے بدعات سے پرہیز ضروری ہے۔ (8) بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کر کے بعض بدعات کو اچھی اور جائز قرار دینا درست نہیں، البتہ وہ ایجادات جن کا تعلق دین سے نہیں، جائزدنیوی امور سے ہے، انہیں شرعا بدعت نہیں کہا جاتا، اس لیے ان کا استعمال درست ہے۔