Book - حدیث 4168

كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ التَّوَكُّلِ وَالْيَقِينِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ وَلَا تَعْجِزْ فَإِنْ غَلَبَكَ أَمْرٌ فَقُلْ قَدَرُ اللَّهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ وَإِيَّاكَ وَاللَّوْ فَإِنَّ اللَّوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ

ترجمہ Book - حدیث 4168

کتاب: زہد سے متعلق احکام و مسائل باب: توکل اور یقین حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا: ‘‘کمزور مومن کی نسبت طاقتور مومن بہتر ہے اور اللہ کو زیادہ پیارا ہے۔ اور سب میں خیر موجود ہے۔ جو چیز تجھے نفع دے سکتی ہے ا سکی (کوشش اور) حرص کر اور عاجز نہ بن۔ اگر تجھ پر (تیری مرضی کے خلاف) کوئی چیز غالب آجائے تو کہہ: یہ اللہ کا فیصلہ ہے۔ اس نے جو چاہا کیا۔ (لفظ لَوْ) ‘‘اگر’’ سے بچ کیونکہ ‘‘اگر’’ سے شیطان کا کام شروع ہو جاتا ہے’’۔
تشریح : 1۔طاقتور مومن اپنی ذہنی اور جسمانی قوتوں کو نیک کاموں کی انجام دہی نیکیوں کے فروغ اور برائیوں کی راہ روکنے میں خرچ کرتا ہےجب کہ کمزور آدمی بہت سے ایسے کام نہیں کرسکتا جو طاقت ور آدمی انجام دے سکتا ہے۔اس لحاظ سے طاقت ور مومن کمزور سے بہتر ہے 2۔جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو طریقے دینے کے لیے جائز طریقے سے کوشش کرنا مستحسن ہے۔ 3۔ جسمانی اور ذہنی قوتوں کو ظلم و زیادتی کے لیے استعمال کرنے سے پرہیز ضروری ہے ورنہ ایسا طاقتور اللہ کو کمزور سے پیارا نہیں ہوگا بلکہ اللہ اس سے ناراض ہوگا۔ 4۔مومن دنیوی فوائد کے لیے محنت کرے تو اچھا ہے کیونکہ وہ انھیں نیکی کے کاموں میں استعمال کرے گا۔ 5۔اچھے مقصد کے حصول کے لیے پوری کوشش کرنا ضروری ہے لیکن اللہ پر اعتماد ہونا چاہیے۔کامیابی ہوتو اللہ کا شکر ادا کیا جائے ورنہ سمجھ لیا جائے کہ ناکامی میں انسان کی کسی کوتاہی کو دخل ہے۔یا یہ مطلوب چیز ہےانسان کے لیے مفید نہیں اور اس کا نہ ملنا انسان کے لیے بہتر اور اللہ کا احسان ہے۔ 6۔ناکام ہونے والے منصوبے کی خامی سامنے آنے پر افسوس کو خود پر مسلط نہ کیا جائےاور یہ نہ کہا جائے:کاش یہ کام اس طرح کی بجائے اس طرح کیا جاتا البتہ خامی تلاش کرکے آئندہ اس سے بچنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ 7۔شیطان کا کام یہ ہے کہ وہ ناکامی کو بہت بڑا کرکے پیش کرتا ہے جس سے اللہ کی رحمت سے مایوسی یا اللہ کی ذات اقدس سے ناراضی اور شکوہ کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں انسان کی آخرت کو تباہ کرنے والی ہیں۔ 8۔بعض اوقات انسان اپنی ناکامی کا ذمہ دار کسی دوسرے انسان کو قرار دے لیتا ہے اور پھر حسد اور بغض کے جذبات کے تحت اسے نقصان پہنچانے یا بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یہ بھی شیطانی عمل ہے۔مزید دیکھیے حدیث :79 کے فوائدومسائل۔ 1۔طاقتور مومن اپنی ذہنی اور جسمانی قوتوں کو نیک کاموں کی انجام دہی نیکیوں کے فروغ اور برائیوں کی راہ روکنے میں خرچ کرتا ہےجب کہ کمزور آدمی بہت سے ایسے کام نہیں کرسکتا جو طاقت ور آدمی انجام دے سکتا ہے۔اس لحاظ سے طاقت ور مومن کمزور سے بہتر ہے 2۔جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو طریقے دینے کے لیے جائز طریقے سے کوشش کرنا مستحسن ہے۔ 3۔ جسمانی اور ذہنی قوتوں کو ظلم و زیادتی کے لیے استعمال کرنے سے پرہیز ضروری ہے ورنہ ایسا طاقتور اللہ کو کمزور سے پیارا نہیں ہوگا بلکہ اللہ اس سے ناراض ہوگا۔ 4۔مومن دنیوی فوائد کے لیے محنت کرے تو اچھا ہے کیونکہ وہ انھیں نیکی کے کاموں میں استعمال کرے گا۔ 5۔اچھے مقصد کے حصول کے لیے پوری کوشش کرنا ضروری ہے لیکن اللہ پر اعتماد ہونا چاہیے۔کامیابی ہوتو اللہ کا شکر ادا کیا جائے ورنہ سمجھ لیا جائے کہ ناکامی میں انسان کی کسی کوتاہی کو دخل ہے۔یا یہ مطلوب چیز ہےانسان کے لیے مفید نہیں اور اس کا نہ ملنا انسان کے لیے بہتر اور اللہ کا احسان ہے۔ 6۔ناکام ہونے والے منصوبے کی خامی سامنے آنے پر افسوس کو خود پر مسلط نہ کیا جائےاور یہ نہ کہا جائے:کاش یہ کام اس طرح کی بجائے اس طرح کیا جاتا البتہ خامی تلاش کرکے آئندہ اس سے بچنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ 7۔شیطان کا کام یہ ہے کہ وہ ناکامی کو بہت بڑا کرکے پیش کرتا ہے جس سے اللہ کی رحمت سے مایوسی یا اللہ کی ذات اقدس سے ناراضی اور شکوہ کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں انسان کی آخرت کو تباہ کرنے والی ہیں۔ 8۔بعض اوقات انسان اپنی ناکامی کا ذمہ دار کسی دوسرے انسان کو قرار دے لیتا ہے اور پھر حسد اور بغض کے جذبات کے تحت اسے نقصان پہنچانے یا بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یہ بھی شیطانی عمل ہے۔مزید دیکھیے حدیث :79 کے فوائدومسائل۔